ٹاور! ٹاور! کراچی کی نئی پیپلز بس سروس میں پرانے طور طریقے جاری
نئی چمچاتی ایئرکنڈیشنڈ بس کے کنڈیکٹر کی دروازے کھول کر ٹاور !ٹاور کی صدائیں لگانے کی وڈیو وائرل، مسافر نے کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا

کراچی میں چلنے والی نئی پیپلز بس سروس کے ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی شروع کردی،کنڈیکٹرز نے یونیفارم اتار دیےاور مسافروں کی توجہ حاصل کرنے کیلیے روایتی گھسے پٹے طریقے اپنا لیے۔
نئی چمچاتی ایئرکنڈیشنڈ بس کے کنڈیکٹر کی دروازے کھول کر ٹاور !ٹاور کی صدائیں لگانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیے
بلاول بھٹو نے کراچی میں پیپلز انٹرا ڈسٹرکٹ بس سروس کا افتتاح کردیا
یشمیٰ گل کو ایس یو وی میں بیٹھ کر بس سروس کی تشہیر مہنگی پڑگئی
گلریز نامی صارف نے طویل ٹوئٹر تھریڈ میں کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی پیپلزبس سروس کا کچا چٹھا کھول کررکھ دیا۔
Taking the #PeoplesBusService up and down Route 1. The bus is stopping for every passenger along Chundrigar Road, to get on or off. Ten minutes later, we’ve only crossed HBL Plaza. This way, you will never be able to provide predictable service @SMTA_GoS @AltafSario 🚩🚩🚩 pic.twitter.com/lqH3qKeXGz
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
انہوں نے آئی آئی چندریگر روڈ سے شروع کیے گئے اپنے سفر کا احوال بتاتے ہوئے لکھا کہ پیپلز بس سروس کودوطرف روٹ نمبر ون پر سفر کا آغاز کیا توبس ہر مسافر کیلیے رک رہی تھی،دس منٹ بعد ہم نے حبیب بینک پلازا عبور کیا۔ انہوں نے سندھ حکومت کو مخاطب لرتے ہوئے لکھا کہ اس طرح آپ کبھی بھی وہ سروس فراہم نہیں کر پائیں گے جس کی آپ نے نوید سنائی ہے ۔
Laal Kothi at 4:30. This bus is packed but mostly quiet. Most people are silently thanking their stars under their breath I guess. pic.twitter.com/9ahNaOyL7y
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
انہوں نے مزید لکھا کہ بس کے بھرنے تک یہ تاخیری حربے اپنانا ان پرانی بسوں اور کوچوں کا خاصا ہے جو ایمپریس مارکیٹ کے ارد گرد گھنٹوں بیکار کھڑی رہتی تھیں۔ ایک مسافر کے لیے ہر 30 گز پر رکنا مضحکہ خیز ہے!انہوں نے بتایا کہ پندرہ منٹ بعد بالآخر ہم شاہین کمپلیکس پہنچ گئے۔
An hour and 15 minutes later, at 5:15, I get off at the last stop, Malir Halt, dry, cool and with my dignity intact. pic.twitter.com/ZyqTfJ0mKF
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
گلریز کا مزید کہنا تھا کہ لال کوٹھی تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے 4 ہوگئے، اور ایک گھنٹہ 15 منٹ بعدشام سوا پانچ بجے میں خشک ، ٹھنڈا اور باوقا ر انداز میں بس کے آخری اسٹاپ ملیر ہالٹ پر اترا۔
On the way back, this driver & non-uniformed conductor duo thought it best to keep the door open & shout Tower! Tower! as the bus made its way through Model Colony. I asked him why. He said it’s easier for people to jump on and off. This is how the rot sets in from the start. pic.twitter.com/uOAFPuOU3i
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
واپسی کا احوال سناتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ واپسی پر جیسے ہی بس ماڈل کالونی سے گزری اس ڈرائیور اور بغیر وردی والے کنڈیکٹر کی جوڑی نے دروازہ کھلا رکھ کر ٹاور! ٹاور! چیخنا بہتر سمجھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ایساکیوں کررہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے لیے چھلانگ لگانا آسان ہے۔ اسی طرح سے خرابی کی ابتدا ہوتی ہے۔
انہوں نے کنڈیکٹر کی جانب سے کرائے کی نقد وصولی پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ 2022 میں آپ کو جدید بس سسٹم میں اس طرح کرایہ نہیں لینا چاہیے۔ احتساب کہاں ہے؟
At 6:08pm, two hours and forty mins later, I was back at Nursery, from where I had started. pic.twitter.com/Lpt9UoAo6s
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
انہوں نے بس سروس کی سست رفتاری کا شکوہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں دو گھنٹے چالیس منٹ بعد 6 بجکر 8منٹ پر نرسری پہنچا ہوں جہاں سے میں نے یہ سفر شروع کیا تھا۔
انہوں نے چنگچی اور تباہ حال بس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا یہ سروس اچھی ہے؟ خاص طور پر جب آپ دستیاب متبادل پر نظرڈالیں۔
Is this the best we could get/deserve? No. I understand that there are teething issues, & quite frankly we have no collective memory of what is good public transit. For decades, all we have experienced is what’s in the background. Collectively, we will have to raise the bar. pic.twitter.com/lPns1kgK0P
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
گلریز نے مزید لکھا کہ کیا یہ سب سے بہتر ہے جو ہم حاصل کر سکتے ہیں یا جس کے مستحق ہیں؟ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مسائل و مشکلات ہیں اور صاف بات کہوں توہماری اجتماعی یادداشت میں کسی اچھی پبلک ٹرانزٹ کی یاد ہے ہی نہیں ۔ کئی دہائیوں سےہم نے صرف وہی تجربہ کیا ہے جو پس منظر میں نظر آرہاہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے اجتماعی طور پر آواز اٹھانا ہوگی۔
But now that we have it, we have to fight to make this the new normal. This cannot be a political gimmick, or a flash in the pan. I’ll write a more detailed piece on this, but leaving you here with a glamour shot of this beautiful bus. #PeoplesBusService pic.twitter.com/rtJno927Fr
— Gulraiz (@gulraizkhan) July 2, 2022
آخر میں انہوں نے لکھاکہ اب جب کہ ہمارے پاس یہ بس سروس ہے، تو ہمیں اسے عام بسوں جیسا بنانے سے روکنے کیلیے لڑنا ہوگا ۔ یہ کوئی سیاسی چال نہیں ہو سکتی ۔ میں اس پر مزید تفصیلی تحریر لکھوں گا، لیکن ابھی میں آپ کو اس خوبصورت بس کی خوبصورت تصویر کے ساتھ یہیں چھوڑ رہا ہوں