ٹاور! ٹاور! کراچی کی نئی پیپلز بس سروس میں پرانے طور طریقے جاری

نئی چمچاتی ایئرکنڈیشنڈ بس کے کنڈیکٹر کی دروازے کھول کر ٹاور !ٹاور کی صدائیں لگانے کی وڈیو وائرل، مسافر نے کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا

کراچی میں چلنے والی نئی پیپلز بس سروس کے ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی شروع کردی،کنڈیکٹرز نے یونیفارم اتار دیےاور مسافروں کی توجہ حاصل کرنے کیلیے روایتی گھسے پٹے طریقے اپنا لیے۔

نئی چمچاتی ایئرکنڈیشنڈ بس کے کنڈیکٹر کی دروازے کھول کر ٹاور !ٹاور کی صدائیں لگانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیے

بلاول بھٹو نے کراچی میں پیپلز انٹرا ڈسٹرکٹ بس سروس کا افتتاح کردیا

یشمیٰ گل کو ایس یو وی میں بیٹھ کر بس سروس کی تشہیر مہنگی پڑگئی

 

گلریز نامی صارف نے طویل ٹوئٹر تھریڈ میں کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی پیپلزبس سروس کا کچا چٹھا کھول کررکھ دیا۔

انہوں نے آئی آئی چندریگر روڈ سے شروع کیے گئے اپنے سفر کا احوال بتاتے ہوئے لکھا کہ پیپلز بس سروس کودوطرف روٹ نمبر ون پر سفر کا آغاز کیا توبس ہر مسافر کیلیے رک رہی تھی،دس منٹ بعد ہم نے حبیب بینک پلازا عبور کیا۔ انہوں نے  سندھ حکومت کو مخاطب لرتے ہوئے لکھا کہ اس طرح آپ کبھی بھی وہ  سروس فراہم نہیں کر پائیں گے جس کی آپ نے نوید سنائی  ہے ۔

انہوں نے مزید لکھا کہ بس کے بھرنے تک یہ تاخیری حربے اپنانا ان پرانی بسوں اور کوچوں کا خاصا ہے جو ایمپریس مارکیٹ کے ارد گرد گھنٹوں بیکار کھڑی  رہتی تھیں۔ ایک مسافر کے لیے ہر 30 گز پر رکنا مضحکہ خیز ہے!انہوں نے بتایا کہ  پندرہ منٹ بعد بالآخر ہم شاہین کمپلیکس پہنچ گئے۔

گلریز کا مزید  کہنا تھا کہ لال کوٹھی تک پہنچتے پہنچتے  ساڑھے 4 ہوگئے، اور ایک گھنٹہ 15 منٹ بعدشام سوا پانچ  بجے  میں خشک ، ٹھنڈا اور باوقا ر انداز میں بس کے آخری اسٹاپ ملیر ہالٹ پر اترا۔

واپسی کا احوال سناتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ واپسی پر جیسے ہی بس ماڈل کالونی سے گزری اس ڈرائیور اور بغیر وردی والے کنڈیکٹر کی جوڑی نے دروازہ کھلا رکھ کر   ٹاور! ٹاور!  چیخنا بہتر سمجھا۔ میں نے ان سے پوچھا  کہ ایساکیوں کررہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے لیے چھلانگ لگانا آسان ہے۔ اسی طرح سے خرابی کی ابتدا ہوتی ہے۔

انہوں نے کنڈیکٹر کی جانب سے کرائے کی نقد وصولی پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ 2022 میں آپ کو جدید بس سسٹم میں اس طرح کرایہ نہیں لینا چاہیے۔ احتساب کہاں ہے؟

انہوں نے  بس سروس کی سست رفتاری کا شکوہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں دو گھنٹے چالیس منٹ بعد  6 بجکر 8منٹ پر نرسری پہنچا  ہوں جہاں سے میں نے یہ سفر شروع کیا تھا۔

انہوں نے چنگچی اور تباہ حال بس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا یہ سروس اچھی ہے؟ خاص طور پر جب آپ دستیاب متبادل  پر نظرڈالیں۔

گلریز نے مزید لکھا کہ کیا یہ سب سے بہتر ہے جو ہم حاصل کر سکتے ہیں یا جس کے مستحق ہیں؟ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مسائل و مشکلات  ہیں اور صاف بات کہوں توہماری اجتماعی یادداشت میں کسی  اچھی پبلک ٹرانزٹ کی یاد ہے ہی نہیں ۔ کئی دہائیوں سےہم نے صرف وہی تجربہ کیا ہے جو پس منظر میں نظر آرہاہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے  اجتماعی طور پر آواز اٹھانا ہوگی۔

آخر میں انہوں نے لکھاکہ  اب جب کہ ہمارے پاس یہ بس سروس ہے، تو ہمیں اسے عام  بسوں جیسا بنانے سے روکنے کیلیے لڑنا ہوگا ۔ یہ کوئی سیاسی چال نہیں ہو سکتی ۔ میں اس پر مزید تفصیلی تحریر لکھوں گا، لیکن ابھی میں آپ کو اس خوبصورت بس کی خوبصورت تصویر کے ساتھ یہیں چھوڑ رہا ہوں

متعلقہ تحاریر