فضل الرحمان دفعہ 144 کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے باہر دھرنا کیسے دینگے؟
اگر حکومت پی ڈی ایم کے دھرنے کیلیے دفعہ 144 کا نفاذ واپس لیتی ہے اور ساتھ تحریک انصاف بھی عدالت سے اظہار یکجہتی کیلیے مظاہروں کا اعلان کردیتی ہے تو حکومت تصادم کو کس طرح روکے گی؟

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی قرار دینے پر 15مئی بروز پیر سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کیا ہے۔اتحادی حکومت کی اہم جماعت پیپلزپارٹی نے بھی دھرنے میں شرکت پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
تاہم اسلام آباد میں کئی ماہ سے دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث دھرنےکے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مولانا فضل الرحمان کا پیر کے روز سپریم کورٹ کے باہر پرامن احتجاج کا اعلان
چیف جسٹس قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، مریم نواز
حکومت دفعہ144 کی خلاف ورزی کو جواز بناتے ہوئے کئی روز سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اور کارکنوں کے خلاف پنجاب ، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں کریک ڈاؤن شروع کررکھا ہے۔اب تک تحریک انصاف کے درجنوں رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کو نقض امن کے خطرے کے پیش نظر حراست میں لیا جاچکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفعہ 144 کی موجودگی میں پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتیں سپریم کورٹ کے باہر کیسے دھرنا دیں گی؟ کیا حکومت اتحادی جماعتوں کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی اجازت دے گی؟ یا پھر دھرنے کے پیش نظر دفعہ 144 اٹھائے گی؟
اگر حکومت پی ڈی ایم کے دھرنے کیلیے دفعہ 144 کا نفاذ واپس لیتی ہے اور ساتھ تحریک انصاف بھی عدالت سے اظہار یکجہتی کیلیے مظاہروں کا اعلان کردیتی ہے تو اسلام آباد میں مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوجائے گا، اس صورت میں حکومت صورتحال کو کس طرح کنٹرول کرے گی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ نازک صورتحال میں حکومت کو عدلیہ سے محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، محاذ آرائی کی صورت میں نقصان صرف اور صرف ریاست پاکستان اور جمہوریت کو ہوگا اور فائدہ غیرجمہوری قوتیں اٹھائیں گی۔