ایم کیو ایم کے رہنما جنرل ورکرز اجلاس میں حفاظتی حصار میں کیوں آئے؟ چہ مگوئیاں جاری

الطاف حسین کی بائیکاٹ اپیل کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اپنے ہی کارکنوں سے ڈرنے لگے۔

بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی جانب سے کراچی، حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کی کال کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے دلوں میں خوف نے ڈیرے ڈال دیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے جنرل ورکرز اجلاس رابطہ کمیٹی کے ارکان اپنے ہی کارکنان کے بیچ سے گزرنے کیلئے حفاظتی حصار میں اپنی نشستوں تک آئے۔

یہ بھی پڑھیے

میرے کل کے مذاکرات کے بیان پر پی ڈی ایم والوں کو غلط فہمی ہو گئی، عمران خان

الطاف حسین کا اپنی شرکت کے بغیر بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ

واضح رہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کی ایما پر رابطہ کمیٹی ارکان کی لاتوں، گھونسوں اور چپلوں سے دھلائی کی روایت موجود ہے، مصطفیٰ کمال، وسیم اختر سمیت کئی رہنما ماضی میں کارکنان کے غیظ و غضب کا سامنا کرچکے ہیں۔

گذشتہ روز حیدر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کا جنرل ورکرز اجلاس ہوا ، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ایم کیو ایم شفاف طریقے سے انتخابات میں حصہ لے گی ، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایم کیو ایم نے حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تو انتخابات نہیں ہوں گے۔

جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات پارٹی کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے ایک مرتبہ پھر سے مزید انتظامی یونٹس بنانے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری ہونے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 سے مہاجروں کی آبادی مردم شماری میں کم شمار کی جاتی رہی ہے۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ مہاجروں کے خلاف سازش کو ناکام بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا اگر سندھ کے ہر شہر میں مردم شماری ٹھیک ہو جائے تو عام انتخابات میں ہر شہر اور ہر گلی سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جیتے گی۔ انہوں نے کارکنان پر زور دیا کہ وہ مردم شماری کرنے والی ٹیموں سے خود رابطہ کریں اور اپنی گنتی شمار کرائیں۔

ایم کیو ایم پی کے کنوینر کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت آزادانہ، منصفانہ اور شفاف لوکل باڈیز (ایل جی) انتخابات پر یقین رکھتی ہے۔ "ہم نے بار بار الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) پر زور دیا کہ وہ درست حد بندیوں کو یقینی بنانے کے بعد انتخابات کرائے۔ پھر جو بھی جیتے گا ایم کیو ایم ان کے ساتھ تعاون کرے گی۔

خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ جون 1992 کے آپریشن نے حقیقت میں ایم کیو ایم کو مضبوط کیا تھا اور یہ آپریشن 2002 تک جاری رہا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کو کمزور کر دیا تھا اور ماضی کی تمام برائیاں اسی دور سے شروع ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی اور جماعت کو بھی اس طرح کے آپریشن کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ ختم ہو جاتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایم کیو ایم کا بیانیہ مضبوط نہ ہوتا تو یہ 22 اگست 2016 کے واقعہ کے بعد زندہ نہ رہتی۔

جنرل ورکز اجلاس سے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر عبدالوسیم، ظفر کمالی، ظفر صدیقی اور سہیل مشہدی نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ تحاریر