اے ٹی سی کا بااثر افراد کے ہاتھوں جزلان کے قتل کو دہشتگردی ماننے سے انکار

کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بحریہ ٹاؤن میں قتل ہونے والے نوجوان جزلان کے قتل کو دہشتگردی تسلیم کرنے سے انکار کردیا، ملزم حسنین کے وکیل مشتاق احمد نے کہا کہ اے ٹی سی جج نے چارج شیٹ آئی او کو واپس کردی ہے اور اسے متعلقہ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے

کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بحریہ ٹاؤن میں قتل ہونے والے نوجوان جزلان کے  قتل کو دہشتگردی  سے زمرے سے نکال دیا۔ عدالت نے  کہاکہ  یہ قتل دہشتگردی کا فعل نہیں تھا۔

کراچی کی سینٹرل جیل قائم جوڈیشنل کمپلیکس کے اندر انسداد دہشتگردی کی عدالت میں بحریہ ٹاؤن میں با اثر افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے جزلان کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔

یہ بھی پڑھیے

جزلان فیصل کا المناک قتل، سندھ حکومت کی بے بسی پر سوالات کھڑے

دوران سماعت عدالت نے قراردیا کہ نوجوان طالب علم جزلان کا قتل ’دہشتگردی کا فعل‘ نہیں تھا۔ ملزم حسنین کے وکیل مشتاق احمد نے مقدمے کو باقاعدہ عدالتوں میں بھیجنے کی درخواست کی تھی ۔

ملزم حسنین کے وکیل مشتاق احمد نے انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 23 (مقدمات کو باقاعدہ عدالتوں میں منتقل کرنے کا اختیار) کے تحت ایک درخواست دائر کی تھی۔

وکیل نے درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ یہ مقدمہ سیکشن 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے دائرے میں نہیں آتا۔ کیونکہ ‘دہشتگردی’ کا کوئی جرم نہیں تھا۔

انگریزی اخبار ڈان کو ملزم حسنین کے وکیل مشتاق احمد نےاے ٹی سی جج نے چارج شیٹ آئی او کو واپس کردی ہے اور اسے متعلقہ عدالت کے دائرہ اختیار میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال 25 مئی کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں معمولی جھگڑے پر بااثر خاندان کے لڑکوں نے 19 سالہ جزلان فیصل کو  فائرنگ کرکے قتل جبکہ ان کے دوست کو شاہ میر علی کو زخمی کردیا تھا ۔

یہ بھی پڑھیے

جزلان فیصل کے ورثا کا قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ

مقتول نوجوان  جزلان نے حسنین، عرفان، احسن اور ان کے دوست انشال کو رات گئے بحریہ ٹاؤن میں بائیک چلانے پراعتراضات اٹھائے تھے جس پر تنازع ہوا ۔

محمد فیض، ان کے بیٹوں حسنین، عرفان، احسن اور ان کے دوست انشال کے خلاف بحریہ ٹاؤن کراچی میں معمولی جھگڑے پر جزلان کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مقتول کے چچا کی مدعیت پر گڈاپ سٹی پولیس اسٹیشن میں منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل کرنا ) مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔

مقدمے میں  324 (اقدام قتل)، 34 (مشترکہ ارادہ) 109 ( جرم میں معاونت کی سزا) اور 114 (جرم کے ارتکاب کے وقت معاون کی موجودگی) کی دفعات بھی شامل کی گئیں تھیں۔

متعلقہ تحاریر