ثمینہ بیگ موسم گرما میں کے ٹو سر کریں گی

ثمینہ بیگ نے 21 سال کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ کو اپنے بھائی علی مرزا کے ساتھ سر کیا تھا۔ لیکن اب وہ کے ٹو کو بھی سر کرنا چاہتی ہیں۔

دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی واحد پاکستانی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ نے رواں سال موسم گرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ثمینہ بیگ نے 21 سال کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ کو اپنے بھائی علی مرزا کے ساتھ سر کیا تھا۔ لیکن اب وہ کے ٹو کو بھی سر کرنا چاہتی ہیں۔ کے ٹو اگرچہ ماؤنٹ ایورسٹ سے بلند نہیں ہے لیکن زیادہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے ہر کوہ پیما کی طرح ثمینہ بھی اُسے سر کرنا چاہتی ہیں۔

ثمینہ بیگ نے اپنے فیس بُک پرایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں اُنہوں نے اپنی مہم کی تفصیلات اور اسپانسر کے نام کا اعلان کیا ہے۔ ثمینہ بیگ نے لکھا ہے کہ ’اپنے کے ٹو ڈریم ایکسپڈیشن 2021  سے متعلق خبر سنانا میرے لیے بڑی خوشی کا باعث ہے جو کہ یکم جون سے 31 جولائی 2021 تک جاری رہے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

موسم سرما میں پہلی بار دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کرلی گئی

کے ٹو
www.facebook.com/saminabaig.pakistani

ثمینہ بیگ کا کہنا ہے کہ گھر یعنی پاکستان میں 8000 میٹر سے زیادہ بلند پہاڑ پر چڑھنے کا خواب ہمیشہ اُن کی آنکھوں اور دل میں تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ بلاشبہ پاکستان میں غیر روایتی کھیلوں کے لیے اسپانسر تلاش کرنا مشکل ترین کام ہے اور اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا جب اُنہوں نے 2015 میں پہلی مرتبہ کے ٹو سر کرنے کی کوشش کی تھی اور اُن کو چوٹیں آئی تھیں۔

زخمی ہوجانے کے بعد ثمینہ بیگ نے مہم ترک کردی تھی لیکن اُن کا مصمم ارادہ تھا کہ وہ واپس پہاڑوں میں جائیں گی۔

اُنہوں نے بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں مواصلات کے ادارے ایس سی او کے لیے وہ گزشتہ 6 سالوں سے برانڈ ایمبیسیڈر کی حیثیت سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہیں۔ لیکن اُسی ادارے نے اُن کا دیرینہ خواب پورا کرنے میں اُن کی مدد کی ہے اور اُن کی موسم گرما کی مہم کو اسپانسر کردیا ہے۔

ثمینہ بیگ کا کہنا ہے کہ ’مجھے بہت اعزاز اور فخر محسوس ہورہا ہے کہ خصوصی مواصلات کی تنظیم (ایس سی او) میرے کے ٹو ڈریم مہم 2021 کی سرپرستی کے ساتھ ملک میں غیر روایتی کھیل کو اسپانسر کررہی ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اِس اقدام سے کے ٹو تک پر کوہ پیمائی مہم کے ذریعے ملک کے نوجوانوں کو پہاڑ پر چڑھنے اور ایک مقامی ٹیم کو ایک ساتھ مل کر اونچے پہاڑوں پر کام کرنے کی ترغیب ملے گی اور مقامی کوہ پیماؤں میں اعتماد پیدا ہوگا کہ وہ آزادانہ طور پر کام کرسکتے ہیں۔ جبکہ اسی سے پاکستان میں پہاڑی سیاحت کو فروغ ملے گا۔

متعلقہ تحاریر