دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میں زمبابوے پاکستان کے لیے آسان ہدف ہوگا؟

عمران بٹ کیریئر کو طول دینے اور عابد علی کیریئر بچانے کے لیے محتاط بیٹنگ پر مجبور ہیں

پاکستان اور زمبابوے کے درمیان 2 کرکٹ ٹیسٹ میچز کی سیریزکا دوسرا اور آخری ٹیسٹ میچ 7 مئی سے شروع ہوگا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے میزبان زمبابوے کو پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی ناقابل شکست برتری حاصل کر لی ہے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اور زمبابوے کرکٹ ٹیم کی ناتجربہ کاری کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سیریز میں 2 صفر سے برتری حاصل کرلے گی۔

تاہم کرکٹ اور خاص طور پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہاجاسکتا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم جیتنے پر آئے تو آسڑیلیا جیسی مضبوط ٹیم کو اس کے ہوم گرائونڈ پر پچھاڑ دے اور شکست کھانے پر آئے تو آئرلینڈ اور زمبابوے جیسی ٹیموں سے ہار جائے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے جب مصباح الحق کی قیادت میں 2013 میں زمبابوے کا دورہ کیا تھا تو پہلے ٹیسٹ میچ میں اسی طرح پاکستان کی ٹیم نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے سیریز میں برتری حاصل کی تھی تاہم دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران پاکستان کی بیٹنگ لائن نے توقعات کے مطابق دھوکا دیا اور پاکستان کو زمبابوے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کرکٹ بورڈ محمد عباس کا ٹیلنٹ ضائع نہ کرے

کپتان مصباح الحق نے اس ٹیسٹ میچ کے دوران ایک اینڈ کو سنبھالے رکھا مگر دوسرے اینڈ سے کوئی بھی بیٹسمین ان کا ساتھ نہ دے سکا اور زمبابوے کی ٹیم اس طرح پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں تیسری جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

لہٰذا پاکستان کرکٹ ٹیم کو 7 مئی سے شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے حوالے سے بھی کسی طرح کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئے کہ جس طرح پہلا ٹیسٹ میچ جیتا ہے دوسرا بھی جیت جائیں گے۔

اگر پاکستان کی ٹیم نے میزبان زمبابوے کی ٹیم کو ذرا سا بھی کمزور حریف سمجھنے کی کوشش کی تو میزبان ٹیم پلٹ کر وار کرسکتی ہے اور اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو 2013 کے دورہ زمبابوے کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں نکالا تھا۔

پاکستا ن کرکٹ ٹیم نے زمبابوے کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے تیاریوں کاآغاز منگل کے روز سے کردیا ہے اور اس دوران قومی کرکٹرز بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کی پریکٹس کر رہے ہیں جبکہ اس دوران کھلاڑی اپنی فٹنس پر توجہ بھی دے رہے ہیں اور محظوظ ہونے کے لیے  کبھی والی بال اور کبھی فٹبال کھیلتے ہیں۔

دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل جاری تربیتی مشقوں کے دوران اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ توجہ پاکستان کی بیٹنگ کی جانب سے دی جا رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی بیٹنگ لائن نے زمبابوے کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا تاہم ایک بات جو دیکھنے میں آئی وہ بلے بازوں کی جانب سے رنز بنانے کی رفتار کا کم ہونا تھا۔

مان لیا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی طرح تیز کرکٹ نہیں کھیلی جاتی مگر اتنی بھی سست روی اچھی نہیں ہوتی جتنی پاکستانی بیٹسمین کی جانب سے دیکھتی جاتی ہے۔ زمبابوے کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران بلاشبہ عابد علی اور عمران بٹ کی جانب سے نصف سنچریاں سکور کی گئیں جبکہ عمران بٹ تو صرف 9 رنز کے فرق سے اپنی پہلی سنچری سکور کرنے میں ناکام ہوئے۔

تاہم دیکھنے میں یہ آیا کہ عمران بٹ اور عابد علی دونوں نے انتہائی سست رفتاری سے اور دباؤ میں رہتے ہوئے اننگز کھیلی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں اوپنرز جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز کے دونوں ٹیسٹ میچز میں ناکامی سے دوچار ہوئے تھے اور انہیں ٹیم میں شامل کرنے کے حوالے سے سلیکٹرز پرسوال بھی اٹھایا گیا۔

عمران بٹ کے تو کیریئر کاآغازہے اور وہ ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے انتہائی محتاط انداز اپنائے ہوئے ہیں لیکن عابد علی کے لیے اب دورہ زمبابوے شاید آخری موقع ہے اگر یہاں بھی عابد علی ناکام ہوئے تو پھر شان مسعود کی طرح ان کی بھی ٹیم سے چھٹی ہو جائے گی۔اسی وجہ سے عابد علی بھی انتہائی دفاعی انداز اختیار کیے ہوئے ہیں۔

زمبابوے کیخلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے جس شعبے کی کارکردگی سب سے زیادہ متاثر کن تھی وہ بولنگ کا شعبہ تھا جس میں حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی نے توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

حسن علی کی کارکردگی بہتری آ رہی ہے جو ایک طویل عرصے ان فٹ رہنے کے بعد ٹیم کا حصہ بنے ہیں اور انہوں نے بھی صرف 12 ٹیسٹ میچز کھیل کر اپنی وکٹسں کی نصف سینچری مکمل کرلی ہے۔

زمبابوے کے خلاف انہوں نے مجموعی طور پر پہلے ٹیسٹ میچ میں 9 وکٹس حاصل کیں اور پلیئر آف دی میچ قرار پائے، شاہین شاہ آفریدی بھی دن بدن بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے خود کو مستند بولر کے طور پر منوا رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان کرکٹ ٹیم کو زمبابوے کے خلاف دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں بھرپور تیاری کے ساتھ اترنا ہوگا کیونکہ ذرا سی غلطی 2013 کی طرح سیریز کو برابری پر ختم کرا سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر