یورپ میں پاکستان کی پہچان لٹل کریم اپنوں کی توجہ کا منتظر
عمربھر کوہ پیماؤں کی خدمت کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والا پاکستانی پورٹر لٹل کریم بڑھاپے میں اپنوں کی توجہ کا منتظر ہے۔
لٹل کریم نے 1980میں حادثاتی طور پر 8ہزار48میٹر بلند براڈ پیک سے بحیثیت پورٹر (بلند پہاڑی چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کیلیے سامان پہنچانے والا) اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔
یہ پڑھیے
کوہ پیما شہروز کاشف کا ایک اور کارنامہ، گنیز ورلڈ ریکارڈ میں نام شامل
کیا پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ کے ٹو سر کرپائیں گی؟
جب گروپ گائیڈ نے پوچھا کہ کیا کوئی ہے جو کیمپ 4 میں کوہ پیماؤں کے لیے کھانا لے جاسکے؟جب کوئی تیار نہ ہوا تو کریم نے مطلوبہ سامان نہ ہونے کے باوجود کوہ پیماؤں کو کھانا پہنچانے کا بیڑا اٹھالیا۔ جس پر بیس کیمپ میں موجود ہر کوئی ان کا مذاق اڑانے لگا کہ تم اتنے چھوٹے ہوکر یہ کام کیسے کرسکتے ہو۔
مگر کریم نے سب کوغلط ثابت کردکھایا اور محض 16گھنٹے کے ریکارڈ ٹائم میں کوہ پیماؤں کا کھانا لے کر بیس کیمپ سے کیمپ 4 تک پہنچ گئے۔ جب کوہ پیما کامیاب مہم جوئی کے بعدواپس کیمپ 4 پہنچے تو کھانا دیکھ کر حیران رہ گئے ۔انہوں نے واکی ٹاکی کے ذریعے بیس کیمپ رابطہ کیا اور پوچھا کہ ان تک کھانا پہنچانے کا جادو کس نے کیا ۔بیس کیمپ کے منیجر نے جواب دیا کہ یہ کارنامہ مسٹر کریم نے سرانجام دیا ہے جس کے بعد وہ کوہ پیماؤں کی دنیا یں مسٹر کریم کے نام سے مشہور ہوگئے۔
مسٹر کریم نے 25 کلو وزنی پیراگلائیڈ گشابرم کی چوٹی تک پہنچاکر عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا۔ کئی مشہور کوہ پیما لیجنڈ لٹل کریم کے ساتھ قراقران سر کرنے لیے پاکستان آئے۔اب تک کریم کی زندگی پر 3 بین الاقوامی دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں جن میں مسٹر کریم، لٹل کریم اور آپو کریم شامل ہیں۔ وہ کوہ پیمائی کے علاوہ فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔ لٹل کریم ایک اور منفرد ریکارڈ بھی رکھتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر کوہ پیمائی کے دوران کبھی کوئی سپلیمنٹری آکسیجن استعمال نہیں کی، یہاں تک کہ وہ اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔
اپنے کامیاب کوہ پیمائی کیرئیر کے بعد کریم نے گلگت بلتستان کی دور افتادہ وادیوں میں فلاحی منصوبے شروع کیے اور اسکول اور صحت کے مراکز کی تعمیر شروع کردی۔ کریم نے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کیا، اب تک ان کے قائم کردہ اسکولز سے سیکڑوں لڑکیاں تعلیم مکمل کرچکی ہیں جبکہ ہزاروں طالبات مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں۔
یورپ بھر میں کریم کو کوہ پیمائی کے لیجنڈ اور گرو کے طور پر پہچاناجاتا ہے اور انہیں کئی مرتبہ یورپ بلا کر ایوارڈز اور اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے جبکہ ان کے فلاحی کاموں کیلیے عطیات بھی دیے گئے ۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے انہیں کبھی کسی ایوارڈ سے نہیں نوازا ور نہ ہی انہیں قومی سطح پرپذیرائی بخشی۔لٹل کریم خرابی صحت کے باعث 2 سال سے صاحب فراش ہیں اور اپنے آبائی شہر ہوشے میں ایک کچن اور ایک کمرے کے سادہ گھر میں زندگی بسر کررہے ہیں۔