ٹک ٹاک پر پابندی، فواد چوہدری اور ٹک ٹاکرز ناراض

پشاور ہائی کورٹ میں 40 سے زیادہ شہریوں نے ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

مختصر ویڈیو شیئرنگ کی مقبول ترین ایپ ٹک ٹاک پر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ایپ پر پابندی عائد کرنے کے لیے عدالت میں 40 سے زیادہ شہریوں نے درخواست دائر کی تھی۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیز کو فوری طور پر ٹک ٹاک تک رسائی روکنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹک ٹاک سوشل میڈیا صارفین کے درمیان انتہائی مقبول ایپ ہے لیکن گذشتہ چند ماہ کے عرصے میں اس ایپ پر 2 مرتبہ پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ایپ کے ذریعے معاشرے میں فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کے لیے عدالتوں میں ایپ پر پابندی عائد کرنے کی درخواست تک دائر کی گئی ہے۔

پاکستان میں گذشتہ برس اکتوبر میں بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کی وجہ ملک میں غیر اخلاقی مواد کی تشہیر بتایا گیا تھا۔ تاہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس شرط پر پابندی ختم کردی تھی کہ ٹک ٹاک اپنے صارفین کو غیر اخلاقی اور فحش مواد کی تشہیر کی اجازت نہیں دے گی۔

تاہم اب ایک مرتبہ پھر پاکستان میں اس ایپ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جمعرات کے روز پشاور ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان نے کہا کہ ٹک ٹاک پر اپلوڈ ہونے والی ویڈیوز ہمارے معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان ویڈیوز سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے جسے فوری طور پر بند کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ کیا کرنے والی ہیں؟

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ جب تک ٹک ٹاک کے عہدیدار غیر اخلاقی مواد روکنے کے لیے تعاون نہیں کرتے اس وقت تک کے لیے ایپ بند کردی جائے۔

دوسری جانب ٹک ٹاک کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایپ کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غیر اخلاقی اور غیر مناسب مواد کو ہٹایا جاتا ہے تاہم خدمات کی بہتری سے متعلق پی ٹی اے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

ادھر وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی عوام بڑی قیمت چکائیں گے۔

انہوں نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ وہ چیف جسٹس پاکستان سے معاملے میں مداخلت کی درخواست کریں گے اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی عدلیہ کے ساتھ مل کر اس پر کام کرے گی۔

ایک طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے تو دوسری جانب کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے بجائے اس کی مانیٹرنگ پر کام کیا جانا چاہیے۔ یہ ایپ کئی افراد کا ذریعہ معاش بن چکی ہے جس سے کئی گھروں کے چولہے جل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹک ٹاک کے ذریعے ایسے بہت سے باصلاحیت لوگ منظرعام پر آئے ہیں جنہیں ٹی وی اسکرین پر جگہ ملی ہے اور انہوں نے اپنی کارکردگی سے خود کو منوا لیا ہے۔

ٹک ٹاک صارفین کے مطابق ایک ایسی کمیٹی بنائی جانے چاہیے جو ویڈیو اپلوڈ ہونے کے بعد اس کا جائزہ  لے کہ اسے شائع کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ویڈیو میں غیر اخلاقی مواد ہو تو اسے روک دینا چاہیے لیکن اگر مناسب مواد ہو تو اس پر پابندی عائد نہیں کی جانی چاہیے۔‘

یہ بات واضح رہے کہ ٹک ٹاک کا پاکستان میں کوئی دفتر موجود نہیں ہے۔ اس کمپنی کا صدر دفتر سنگاپور میں موجود ہے جس کے کاروبار کو دبئی سے چلایا جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر