جنگ سے کنارہ کشی کے باوجود ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی

گیلپ کے مطابق صدر ٹرمپ کی مقبولیت اب صرف 34 فیصد باقی رہ گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جن کی عہدے سے سبکدوشی کے وقت مقبولیت دیگر صدور کے مقابلے کم ہے۔ لیکن، یہ بات بھی سچ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں جنگ کو کبھی فروغ نہیں دیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کا آج آخری روز ہے۔ ریپبلیکنز کی حکومت کے آخری 2 ہفتوں میں صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں واضح کمی دیکھی گئی۔ کیپیٹل ہل پر حملہ اور مواخذہ اس کی دو اہم وجواہات قرار دی جارہی ہیں۔

گیلپ کے حالیہ سروے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت اب صرف 34 فیصد باقی رہ گئی ہے۔ گیلپ کے مطابق کیپیٹل ہل پر حملے سے قبل صدر ٹرمپ کی مقبولیت 39 عشاریہ 8 فیصد تھی جبکہ واقعے کے بعد اس میں کم از کم 4 فیصد کمی آئی۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر اور جارج بش کے علاوہ ماضی میں جو امریکی صدور حکومت میں آئے، آخری دنوں میں ان کی مقبولیت ٹرمپ کے مقابلے زیادہ تھی۔

جمی کارٹر اور جارج بش کی عہدے کے آخری دنوں مقبولیت 34 فیصد تھی جبکہ باراک اوباما نے جب اپنا آفس چھوڑا اس وقت وہ 59 فیصد مقبولیت رکھتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ہالی ووڈ کے پسندیدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں جوبائیڈن

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے چار سالوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک مثبت پہلو جو واضح ہے وہ یہ کہ انہوں نے جنگ کے بجائے امن کو ترجیح دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جس نے کسی نئی جنگ کی شروعات نہیں کی۔ اس کے برعکس امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد انہوں نے دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا۔ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں بھی متعدد مرتبہ افغانستان میں فوجیں بھیجی گئیں۔

صدر ٹرمپ کے الوداعی بیان میں صداقت ہے تاہم ان چار سالوں میں نسلی امتیاز کے خلاف امریکا میں پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔

متعلقہ تحاریر