انڈیا میں آزادی صحافت کو شدید خطرات

انڈیا کی سینئر صحافی برکھا دت نے امریکی خبر رساں ادارے کے لیے لکھی گئی تحریر میں حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔

انڈیا کی سینئر صحافی اور مصنفہ برکھا دت نے ملک میں آزادی صحافت کی راہ میں آنے والی مشکلات بتادی ہیں۔

اپنی انتہا پسندی اور تعصب کی وجہ سے انڈیا کئی مواقع پر زیربحث رہتا ہے۔ اب انڈیا ہی کی ایک مشہور صحافی اور مصنفہ برکھا دت نے امریکی خبر رساں ادارے کے لیے ایک تحریر لکھی ہے جس میں بتایا ہے کہ ملک میں آزادی صحافت خطرات سے دو چار ہے۔

برکھا دت نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھی گئی تحریر میں کہا ہے کہ ’ایک صحافی کو خبر دینے والا ہونا چاہیے، خبر بننے والا نہیں۔ جب ایک وائرل ویڈیو کی وجہ سے کسانوں کے مظاہروں کی اطلاع دینے پر 8 صحافیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ ہو اور پولیس کوئی کارروائی نہیں کرے تو خاموشی بزدلی ہوتی ہے۔‘

انہوں نے لکھا کہ ‘جب انتخابات اور اقتدار کی پرامن منتقلی کی بات آتی ہے تو جمہوریت زور پکڑتی ہے لیکن جب دیگر اداروں کی آزادی کی بات ہو تو جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ عوام اور ریاست کے درمیان ایک شفقت آمیز معاہدے کے بجائے جارحیت اور سختی اختیار کرنا معمول بن گیا ہے۔ پولیس سیاست کی نذر ہوچکی ہے، اختلاف رائے کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے، میڈیا سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے اور طنز و مزاح کرنا جرم بن گیا ہے۔ اس منقسم ماحول میں فروعنیت پنپتی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں فلمیں بھی ہندوتوا کے نام سے بن رہی ہیں

انہوں نے لکھا کہ ’نفرت انگیز ویڈیو میں میرے اور دیگر صحافیوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے کچھ پلیٹ فارمز نے حذف کردیا تھا لیکن اس وقت تک 5 لاکھ افراد اسے دیکھ چکے تھے۔ یہ ویڈیو ماحولیات کی 22 سالہ سرگرم کارکن دیشا روی کی گرفتاری کے پس منظر میں سامنے آئی تھی جن پر الزام ہے کہ وہ کسانوں کے مظاہروں کو وسعت دینے کے لیے ایک آن لائن ’ٹول کٹ‘ پر تعاون کر رہی ہیں۔ حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ دیشا روی نے کینیڈا میں مقیم نوعمر کارکن گریٹا تھنبرگ اور علیحدگی پسند سکھ گروپ کے ساتھ ایک بین الاقوامی سازش میں بھی حصہ لیا تھا۔‘

انڈین صحافی نے لکھا کہ ’دیشا روی کی تنظیم نے ٹول کٹ میں کسی خاص لنک کو شامل کرنے میں تحقیق کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے گروپ سے رابطے کی تردید کی۔ ضمانت منظور ہونے سے قبل دیشا روی نے 10 روز حراست میں گزارے لیکن اس تنازعے نے حکومت کو مظاہروں سے نمٹنے کے لیے مناسب موقع فراہم کیا۔ جبکہ عدالت نے ٹول کٹ کو بےضرر قرار دیا۔‘

اُن کے مطابق ’یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پولیس نے دیشا روی کو گرفتار کیا لیکن ایک کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جو کھلے عام تشدد کو اکسا رہا تھا۔ یوٹیوب سے ویڈیو ہٹ جانے کے باوجود بھی بی جے پی کے کم از کم 4 ممبران ہماری پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔‘

برکھا دت
India TV

انہوں نے لکھا کہ ’سنیچر کے روز ریاست اتر پردیش میں پولیس نے دو دلت لڑکیوں کی خبر چلانے پر میرے خلاف مقدمہ درج کیا۔ مقدمے میں قانون کے دو سیکشنز کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا مطلب 3 سال تک قید ہوسکتا ہے۔ ہمارے ٹوئٹر ہینڈل کے خلاف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ لاگو کیا گیا ہے اور ہمارے وکلاء نے متنبہ کیا گیا ہے کہ پولیس ہمارے فونز اور کمپیوٹرز ضبط کرسکتی ہے۔‘

برکھا دت نے لکھا کہ ‘یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ متاثرہ افراد کے اہل خانہ نے مجھے بتایا کہ پولیس نے میتوں کی آخری رسومات جلد از جلد ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا جس سے انہوں نے انکار کیا۔ پچھلے سال ایک اور گاؤں میں ایک دلت عورت کو عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ ہمیں 2 دن تک گاؤں جانے سے روک دیا گیا تھا اور آدھی رات کو آخری رسومات ادا کی گئیں تھیں۔ پولیس کا ہمیں قانونی بھنور میں پھنسانے اور خوف پیدا کرنے کا مقصد واضح ہے تاکہ ہم تنقید کرنے سے پہلے سوچیں۔’

یہ بھی پڑھیے

پاکستان انڈیا کو گدھے دے کر گائیں لے سکتا ہے؟

انڈین صحافی کے مطابق انڈیا میں اب بھی آزاد صحافی خطرے سے دوچار ہیں۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 2020 میں 67 صحافیوں سے ان کی ملازمتوں کے بارے پوچھ گچھ کی گئی۔ انہیں حراست میں لیا گیا یا پھر گرفتار کیا گیا کیونکہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں انڈیا کی 2 درجہ تنزلی ہوئی تھی۔

برکھا دت نے انڈیا میں آزادی صحافت کی غیریقینی صورتحال بتاتے ہوئے لکھا کہ ‘صرف جنوری میں ہی 5 صحافی گرفتار ہوئے جو تقریباً 3 دہائیوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تمام تر چیلنجز کے باوجود بین الاقوامی میڈیا گروپس اور رپورٹرز نے میرے ساتھ سے تعاون کیا۔ لیکن جب میں چھوٹے چہروں کے نامہ نگاروں کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ حقیقت میں ہمیں ٹول کٹ کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنی زخمی جمہوریت کی بحالی کی اجازت دے گا۔’

متعلقہ تحاریر