میانمار کی راہبہ کی بہادری کا قصہ دنیا بھر میں مشہور

راہبہ نے پولیس اہلکار سے کہا کہ ’بچوں کو گولیوں اور تشدد کا نشانہ نہیں بنائیں بلکہ اس کے بجائے راہبہ گولی مار دیں۔‘

میانمار کی ایک راہبہ کی بہادری کی پوری دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ راہبہ پولیس اہلکاروں کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور ان سے ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہی ہیں کہ مظاہرین کو بچائیں اور اس کے بجائے چاہے انہیں قتل کردیں۔

میانمار کے شہر میٹکینا میں سفید رنگ کا لباس پہنے راہبہ کی تصویر منظرعام پر آئی جس میں وہ پولیس اہلکاروں سے التجا کر رہی ہیں کہ وہ بچوں سمیت مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے سے گریز کریں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سسٹر این روز نو تونگ نے تصویر کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے گھٹنے ٹیکے ان سے گزارش کی کہ وہ بچوں کو گولیوں اور تشدد کا نشانہ نہیں بنائیں بلکہ اس کے بجائے وہ مجھے گولی مار دیں۔‘

میانمار کی راہبہ کی اِس بہادری کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔

آنگ سان سوچی کی حکومت کو فوج نے 1 فروری کو ہٹادیا تھا تاہم عوام کی طرف سے ردعمل اس وقت سامنے آیا جب وہ فوجی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے لگے۔

یہ بھی پڑھیے

حاملہ خواتین کی نوکریوں کو خطرات لاحق

اس کے بعد فوج نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے آنسو گیس، واٹر کینن اور یہاں تک کہ اصلی گولیوں کا استعمال کیا تھا۔ پیر کے روز جب مظاہرین گھر چھوڑ کر میٹکینا شہر میں سڑکوں پرجمع ہورہے تھے تب پولیس نے ان کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا تھا۔

ان حالات  سے پریشان ہوکر سسٹر این روز نو تونگ پولیس اہلکاروں کے پاس بھاگیں اور اہلکاروں کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں کر ان سے التجا کی کہ مظاہرین کو چھوڑ دیں۔

جواب میں 2 پولیس اہلکار بھی سسٹر این روز نو تونگ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے لیکن کچھ لمحوں بعد پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی۔

متعلقہ تحاریر