مغرب مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں

ایک ہی روز میں کینیڈا میں مسلمان خاندان کا قتل ہوا اور فرانسیسی صدر کو تھپڑ پڑگیا۔

مذہبی منافرت کا زہر آہستہ آہستہ مغرب کی رگوں میں سرایت کرتا جارہا ہے۔ گزشتہ روز کینیڈا اور فرانس میں انتہا پسندی کے دو واقعات دیکھنے میں آئے جو کہ مغربی ممالک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے مغرب میں جنونیت بڑھتی جارہی ہے۔ مذہبی منافرت، انتہا پسندی، جسمانی تشدد، نفرت انگیز خیالات کا پرچار اور تعصب مغربی ممالک کو اندر سے کھوکھلا کیے جارہا ہے۔ گزشتہ روز کینیڈا اور فرانس میں انتہا پسندی کے دو واقعات دیکھنے میں آئے۔

کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر لندن میں کینیڈین دہشتگرد نے پک اپ ٹرک کو فٹ پاتھ پر چڑھا کر پاکستانی خاندان کے 4 افراد کو روند دیا۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلاموفوبیا قرار دیا اور کہا کہ کینیڈا میں مذہبی منافرت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

دوسرا واقعہ گزشتہ روز فرانس میں پیش آیا جہاں فرانسیسی صدر کو تھپڑ مار دیا گیا۔ صدر ایمانوئیل میکرون ڈروم کے دورے پر تھے اور ریسٹورنٹ کے انتظامی امور کی تربیت حاصل کرنے والے طلبہ سے ملاقات کر رہے تھے کہ مجمعے میں موجود ماسک پہنے ایک شخص نے صدر کا ہاتھ پکڑا اور تھپڑ رسید کردیا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ کوئی روک نہ پایا تاہم صدر کے سکیورٹی اہکاروں نے تھپٹر مارنے والے شخص کو گرفتار کرلیا۔

یہ بھی پڑھیے

کینیڈا میں اسلاموفوبیا نے پاکستانی خاندان کی جان لے لی

اگر ہم پچھلے 3 سالوں کا جائزہ لیں تو مغربی ممالک میں انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ سال 2019 سے 2021 تک فرانس، جرمنی، اسپین، برطانیہ اور امریکا میں چھرا گھونپنا، فائرنگ، توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے مختلف واقعات رونما ہوئے۔

متعدد عوامی سرویز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں نوجوان آبادی جمہوریت کے خلاف بدنظمی پیدا کررہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی حمایت ہے۔ چنانچہ حالیہ دور میں انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کا مقابلہ کرنا مغرب کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس نفرت کو جلد سے جلد ختم نہ کیا گیا تو مستقبل میں کئی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر