مودی کا کشمیر پالیسی پر یوٹرن؟

بھارتی وزیراعظم نے 5 اگست 2019 کے اپنے فیصلے کی منظوری کے لیے اے پی سی طلب کی ہے۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندرہ مودی نے ایک مرتبہ پھر نئی سیاسی چال چلتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت کانفرنس کی قیادت کے بغیر ہی سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں طلب کرلی ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندرہ مودی کی جانب سے آج طلب کی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے لیے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی، جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ اور رہنما عمر عبداللہ، 3 روز قبل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے شبیر احمد میر سمیت دیگر رہنماؤں کو دعوت نامے جاری کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مودی حکومت نے معیشت کا دھڑن تختہ کردیا

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اے پی سی میں مدعو کی گئی تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو ایجنڈے کی تفصیلات کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق وزیراعظم نریندرہ مودی کی زیرصدارت ہونے والی اے پی سی میں حریت رہنماؤں کو دعوت نامے جاری نہیں کیے گئے ہیں۔

پس پردہ مذاکرات

ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی اور انڈین قیادت کے درمیان پس پردہ مذاکرات میں یہ بات طے پاگئی ہے کہ آج وزیراعظم نریندرہ مودی اے پی سی میں اپنے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کردیں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے دو وفاقی علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا اقدام ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق آج انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اس لیے طلب کی گئی ہے تاکہ وزیراعظم نریندرہ مودی کشمیری قیادت پر دباؤ ڈال کر اپنے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو منظور کروا سکیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پاکستانی قیادت کو نئی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔

واضح رہے کہ انڈین حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کرنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 ختم کردیئے تھے جس کے بعد سے وادی میں حالات کشیدہ ہیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان متعدد مرتبہ اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ انڈین قیادت کے مذاکرات اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال نہیں کیا جاتا۔ اسی بات کا اظہار وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی کئی مرتبہ کرچکے ہیں۔

دوسری جانب بدھ کے روز وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں اقوام متحدہ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انڈیا ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ وہاں کی آبادی کو دوبارہ تقسیم اور تبدیل کرنے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے۔

مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ سروس بند

ادھر مقبوضہ جموں و کشمیر میں حکومت کی ہدایت کے پیش نظر 48 گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔ جبکہ مقبوضہ وادی میں کسی بھی احتجاج کو روکنے کے لیے وادی میں موجود 10 لاکھ انڈین فوجی اہلکاروں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔

متعلقہ تحاریر