امریکی صدر کا افغانستان سے افواج کے انخلا کا دفاع

جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ جو جنگ افغانستان کی فوج نہیں لڑسکتی وہ امریکی فوج کیوں لڑے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو جنگ افغانستان کی فوج نہیں لڑسکتی وہ امریکی فوج کیوں لڑے؟ امریکا نے افغان فوج کو ہر قسم کا تعاون فراہم کیا اور اربوں ڈالرز لگائے لیکن ان کی فوج اور سیاستدان طالبان کے سامنے ٹک نہیں سکے۔ تجزیہ نگاروں نے جوبائیڈن کی تقریر پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔

افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان نے پورے ملک پر قبضہ کرلیا۔ طالبان جنگجوؤں کی کابل آمد پر صدر اشرف غنی مستعفی ہوکر ملک سے فرار ہوگئے تھے جس کے بعد طالبان صدارتی محل پر بھی قابض ہوگئے ہیں۔

افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں افغانستان میں 20 سالوں سے چلنے والی جنگ ختم کرنے پر کوئی افسوس نہیں، یہ فیصلہ امریکی عوام، افواج اور امریکا کی سلامتی کے لیے درست ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان 4 جولائی 2021 سے 15 اگست 2021 تک

جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ان کا افغانستان میں مشن مکمل ہوگیا تھا۔ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کا مقصد امریکا کو دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ طالبان امریکا کی امید سے بھی زیادہ تیزی سے پورے افغانستان پر قابض ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغان فورسز سے ہر قسم کا تعاون کیا، انہیں بہترین سامان مہیا کیا اور ان کی بحالی پر اربوں ڈالر لگائے لیکن پھر بھی افغانستان کی فوج جنگ نہیں لڑسکی۔ جو جنگ افغان اپنے لیے نہیں لڑ سکتے، اس جنگ میں امریکی بھی اپنی جانیں قربان نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے اشرف غنی پر طالبان سے بات چیت کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ جوبائیڈن نے کہا کہ امریکا افغانستان میں اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے طالبان کو تنبیہ کی کہ اگر امریکی افواج کے انخلا میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو وہ بھرپور طاقت سے اپنے لوگوں کا دفاع کریں گے۔

افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے امریکی صدر جوبائیڈن کی تقریر پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکا نے افغانستان کی فوج اور سیاستدانوں پر بڑی رقم خرچ کی لیکن 20 سالوں میں امریکا وہاں مضبوط ادارے قائم نہیں کرسکا جو طالبان کا مقابلہ کرسکتے۔ امریکا افغانستان میں بنیادی ڈھانچہ اور فوج پر رقم خرچ کرنے کے علاوہ اداروں کے قیام اور ان کی مضبوطی پر کام کرتا تو شاید آج اس طرح امریکا کو افغانستان نہیں چھوڑنا پڑتا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 20 سالوں میں امریکا طالبان کی طاقت اور وہاں کے ماحول کو سمجھ نہیں سکا۔ ایک کمزور حکومت اور فوج کو ہتھیار دینے سے کوئی لڑائی جیتی نہیں جا سکتی۔ افغانستان میں افغان حکومت اور فوج کی شکست حقیقت میں امریکا کی شکست ہے۔

متعلقہ تحاریر