جی سیون ممالک کا اجلاس اور طالبان حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز

طالبان کی غیر مستحکم حکومت کو اندرونی خلفشار کے ساتھ بیرونی خدشات کا بھی سامنا ہے۔

جی سیون ممالک کے سربراہان نے افغانستان کی صورتحال پر ایک اہم اجلاس آج طلب کیا ہے جو طالبان کی غیرمستحکم حکومت کے لیے نئے چیلنجز کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی درخواست پر افغان بحران پر تبادلہ خیال کے لیے جی سیون ممالک کا اجلاس آج طلب کیا گیا ہے۔ اجلاس میں رکن ممالک پر زور دیا جائے گا کہ حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

معتبر بھارتی تجزیہ کار بھی افغانستان میں پاکستانی فتح کے معترف

افغان طالبان نے گزشتہ ہفتے کابل پر قبضہ حاصل کرلیا تھا، جس کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہے ، لوگوں کو خوف ہے کہ 20 سال قبل ختم ہونے والے اسلامی قوانین دوبارہ نافذ العمل نہ ہو جائیں۔

مغربی طاقتیں اجلاس میں اس پر تبادلہ خیال کر رہی ہیں کہ کابل کے حالات کو کس طرح سنبھالا جائے جہاں سے ہزاروں شہری بھاگنے کے لیے بے چین ہیں۔

اتوار کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے لکھا ہے کہ "یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان سے محفوظ انخلاء کو یقینی بنائے ، انسانی بحران کو روکنے اور افغان عوام کو گزشتہ 20 سالوں کے دوران ہونے والے فوائد کو محفوظ بنانے کے لیے تعاون کرے۔”

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر صورت حال مخدوش ہے کیونکہ ایئر پورٹ کے اندر اور باہر لوگوں کا ایک جم غفیر ہے۔

دریں اثنا افغان طالبان نے خبردار کیا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے ان کے ملک سے انخلاء کی آخری تاریخ 31 اگست ہے۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین نے پیر روز کے ایک بیان میں کہا ہے کہ مکمل انخلاء کی تاریخ میں توسیع کی گئی تو اس کو قبضہ تصور کیا جائے گا، جس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جی 7 کے رہنما طالبان کے خلاف ایک متفقہ منصوبے پر طے پانے کے لیے ملاقات کر رہے ہیں جنہوں نے انخلا کے لیے غیر ملکی فوجوں کو محفوظ راستہ دینا ہے۔

دوسری جانب پنجشیر میں طالبان مخالف قوتیں احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی قیادت میں طالبان کے خلاف میدان میں اتر آئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجشیر اور اس کے اردگرد گھمسان کی جنگ جاری ہے، جبکہ دونوں اطراف سے اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔

پنجشیر کی وادی کابل سے 150 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ۔ طالبان آج تک وادی پنجشیر پر قبضہ نہیں کرسکے جب 1996 سے 2001 تک ان کی افغانستان پر حکومت تھی ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں جی 7 ممالک کے اجلاس میں طالبان کی حکومت کے لیے ایک مشکل نقطہ نظر پیش کیا جاسکتا ہے، کیونکہ افغانستان میں بینکس بند ہیں اور ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود کاروباری سرگرمیاں بھی بحال نہیں ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں جی سیون ممالک نے طالبان حکومت پر اگر مزید پابندیاں عائد کردیں تو یہ غیرمستحکم حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر