امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریر نے اہم سوالات کو جنم دے دیا
بیس سالہ افغان جنگ میں امریکا کے یومیہ 50 ارب روپے خرچ ہوئے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ 20 سالہ جنگ میں امریکا کے یومیہ 50 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ امریکا کا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد مشن مکمل ہوچکا تھا۔ ماہرین نے امریکی صدر کی تقریر پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
امریکا 20 سالہ طویل جنگ کے بعد 31 اگست کو افغانستان سے نکل گیا۔ امریکا کی اس لاحاصل جنگ کے دوران 50 ہزار افغان شہری جاں بحق ہوئے۔ 2500 امریکی فوجی، 66 ہزار افغان فوجی، 457 نیٹو اہلکار اور 50 ہزار طالبان جنگجو اور دہشتگرد مارے گئے۔
افغان جنگ کے اختتام پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی قوم سے خطاب میں امریکی انخلا کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی افواج نے 17 روز میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد غیرملکیوں اور افغان باشندوں کو کابل سے باہر نکالا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے انخلا سول اور ملٹری قیادت کے متفقہ فیصلے کے بعد کیا گیا۔
There is nothing low-grade, low-risk, or low-cost about any war. It was time to end the war in Afghanistan. pic.twitter.com/jAGbWnBzol
— Joe Biden (@JoeBiden) September 1, 2021
یہ بھی پڑھیے
امریکا کے بعد داعش طالبان کے لیے بڑا چیلنج
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے انخلا کا معاہدہ کرلیا تھا۔ اگر وہ طالبان سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے تو طالبان کے جنجگو امریکی افواج پر حملے کرسکتے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ 20 سالہ جنگ کے دوران امریکا نے افغانستان کے اندر روزانہ کی بنیاد پر 50 ارب روپے خرچ کیے۔ جوبائیڈن نے کہا کہ امریکا اپنی اگلی نسل کو ایسی جنگ میں نہیں دھکیلنا چاہتا جو کہ بہت پہلے ختم ہوجانی چاہیئے تھی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کا 10 سال قبل مشن مکمل ہوچکا تھا تو انہیں افغانستان سے نکل جانا چاہیئے تھا۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکا کے افغانستان میں کچھ اور ہی مقاصد تھے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے 20 سالہ جنگ کے دوران روزانہ 50 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ یہ رقم امریکا نے قرض کی مد میں لی ہوئی ہے جس سے امریکی شہریوں کو سود سمیت تقریباً 6 کھرب ڈالرز واپس ادا کرنے ہوں گے جس کا براہ راست لاکھوں غریب شہریوں پر اثر ہورہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا کو تقریباً تمام جنگوں میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی جنگ شروع کرنے سے قبل اس کا مذاکرات کے ذریعے حل نکل سکتا ہے۔ اگر یہی کام امریکا افغانستان میں آج سے 10 سال پہلے کرتا تو شاید آج انہیں اپنی عوام پر قرض کا اتنا بڑا بوجھ نہ ڈالنا پڑتا ۔