چینی عدالت نے جنسی ہراسانی کیس میں خاتون کے الزامات مسترد کردئیے

سوشل میڈیا پر خاتون کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو عوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد وہ عدالت پہنچ گئیں

بیجنگ کی عدالت نے ایک ہائی پروفائل جنسی ہراسانی کیس میں مدعی خاتون کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس کے الزامات کی تصدیق کے لیے ثبوت ناکافی ہیں، اس فیصلے سے چین کی "MeToo”  تحریک کو دھچکا لگنے کا امکان ہے۔

2018 میں سوشل میڈیا کے ذریعے 28 سالہ ‘ژو ژیاوکوان’ نے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے براڈکاسٹر ‘ژوجون’ پر الزام عائد کیا کہ 2014 میں جب وہ انٹرن شپ کررہی تھیں تو ملزم نے اسے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔

سوشل میڈیا پر خاتون کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو عوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد وہ عدالت پہنچ گئیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خاتون کی جانب سے پیش کردہ ثبوت جنسی ہراسانی کے الزام کو ثابت کرنے کیلیے ناکافی ہیں۔

خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی کیونکہ عدالت نے ثبوت کے طور پر پیش کی گئی ویڈیوز کو سِرے سے دیکھا ہی نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایشال فیاض نے اعجاز اسلم کو ہراساں کردیا

چین کی MeToo تحریک 2018 میں شروع ہوئی جب بیجنگ میں ایک کالج کی طالبہ نے اپنے پروفیسر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ رفتہ رفتہ این جی اوز، میڈیا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنے ساتھ پیش آئے ہراسانی کے واقعات بتانا شروع کیے۔

چین میں MeToo تحریک سے متعلق خبروں کی نشرواشاعت پر اس وقت پابندی لگادی گئی تھی لیکن حال ہی میں بڑی ٹیکنالوجیکل کمپنی علی بابا اور گلوکار کرس وو پر جنسی ہراسانی کے الزامات نے ایک دفعہ پھر اس MeToo کو موضوع گفتگو بنادیا ہے۔

متعلقہ تحاریر