طالبان کے اقتدار میں 6400افغان صحافیوں کے بیروزگار ہونے کا انکشاف

ہر10 میں سے 4 میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہوچکے اور60 فیصد صحافی اور میڈیا ملازمین اب کام کرنے کے قابل نہیں،سروے

طالبان کے اقتدار میں 6400 افغان صحافی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔اس بات کا انکشاف صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) اور افغان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن(اے آئی جے اے) کے سروے میں کیا گیا ہے۔

 سروے کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کے منظر نامے میں بنیادی تبدیلی آئی ہے۔231 میڈیا آؤٹ لیٹس کو بند کرنا پڑا ہے۔ افغانستان کے میڈیا پر طالبان کے قبضے کا اثر ڈرامائی رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے
افغانستان میں امریکی ہار پر بھارتی میڈیا اور عوام الجھن کا شکار

اربوں ڈالرز کا امریکی جدید اسلحہ اب طالبان استعمال کریں گے

سروے کے مطابق ہر10 میں سے 4 میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہوچکے اور60 فیصد صحافی اور میڈیا ملازمین اب کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد صحافی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں کیونکہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے ان میں سے 80 فیصد اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں۔

آر ایس ایف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں موسم گرما کے آغاز میں 543 میڈیا آؤٹ لیٹس موجود تھے جبکہ نومبر کے آخر تک ان میں سے صرف 312 ہی کام کر رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ تین ماہ کے عرصے میں 43 فیصد افغان میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہوگئے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ صرف چارماہ قبل زیادہ تر افغان صوبوں میں کم از کم 10نجی میڈیا آؤٹ لیٹس تھے لیکن کچھ علاقوں میں اب کوئی مقامی میڈیا موجود نہیں ہے۔

شمالی صوبے پروان میں جہاں پہلے 10 میڈیا آؤٹ لیٹس ہوا کرتے تھے لیکن اب صرف تین کام کر رہے ہیں۔ملک کے تیسرے بڑے شہر ہرات اور آس پاس کے صوبے میں 51 میں سے صرف 18 میڈیا آؤٹ لیٹس اب بھی کام کر رہے ہیں جو 65فیصد تنزلی کی نشاندہی کررہے ہیں۔

تنظیم کے مطابق میڈیا کے سب سے زیادہ دفاتر کا حامل وسطی کابل بھی صورتحال سے محفوظ نہیں رہا اور وہاں بھی ہر دو میں ایک سے میڈیا ہاؤس بند ہوچکا ہے۔15 اگست سے پہلے یہاں 148 میڈیا آؤٹ لیٹس کام کررہے تھے جن میں سے صرف 72  ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں۔

واضح رہے کہ طالبان نے اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں خواتین کے حقوق، میڈیا کی آزادی اور سرکاری اہلکاروں کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم سابقہ حکومت کے ملازمین اور صحافیوں کو بدستور انتقام کا سامنا ہے۔

افغان طالبان کے ہاتھوں صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ مظاہروں اور ریلیوں کی کوریج کرنے والے نامہ نگاروں کو حکومتی اہلکاروں نے ہراساں کیا ہے۔

متعلقہ تحاریر