ملازمت کھونے کا خوف، بھارتی مسلمان اپنے مسلم نام تبدیل کرنے لگے
قطری خبررساں ادارے الجزیرہ نیوز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منی بیگم کی والدہ کو اپنی مسلم شناخت چھپا کر ساڑھی اور بندی پہننی پڑتی تھی تاکہ مسلم شناخت ظاہر نہ ہو اور اسکی ملازمت بچی رہے جبکہ ان کی بہن عید اور دوسرے مسلم تہواروں کے مواقع پر بھی کام پرجایا کرتی ہےکہ شک و شبہات پیدا نہ ہوں

بھارت میں مسلمانوں کو ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ مسلمان گھریلوملازمین خوف کے مارے نام بدلنے پر مجبور ہوکر رہ گئے ہیں۔
قطرکے خبررساں ادارے الجزیرہ نیوز کےایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کوذات پات کی بنیاد پرامتیازی سلوک اورتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مسلمان گھریلوملازمین خوف کے عالم میں اپنا نام بدل کر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مودی کی کارستانیاں، مولانامودودی و سیدقطب علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب سے خارج
رپورٹ میں بھارتی بزرگ خاتون منی بیگم کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے50 کی دہائی میں گھریلو ملازمت شروع کی تو معلوم ہوا کہ خاندان کی خواتین مسلم ناموں کو ہندو نام سے تبدیل کرکے نوکری کرتی ہیں کیونکہ مسلمانوں کو نوکریاں نہیں دی جاتی ہیں۔
منی بیگم نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہندو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں، وہ ہمیں نوکریاں نہیں دیتے جبکہ کچھ لوگ تو منہ پر کہہ دیتے ہیں مسلمان گندے اور برے لوگ ہوتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو نام تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میری بیوہ ماں اپنی مسلم شناخت چھپانے کیلئے ساڑھی اوربندی پہن پر کام کرتی تھی جوکہ روایتی طورپرہندوانہ لباس ہے جبکہ میری بہن بھی عید وں کے موقع پر بھی کام پر جایا کرتی ہے کہ شک و شبہات پیدا نہ ہوں۔
بھارت میں سرکاری سطح پر گھریلو ملازمین کی تعداد 50 لاکھ ہے تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گھریلوملازمین کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی زیادہ ہیں جوکہ محتاط اندازے کے مطابق 80 ملین ہوسکتی ہے ۔
الجزیرہ نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مدینہ اختر ور اس کی دیگر رشتہ دار خواتین گھریلو ملازمت کرتی ہیں، شوہرکے انتقال کے بعد سے وہ اپنا مسلم نام تبدیل کرکے ہندو نام سے ملازمت کررہی تھی ۔
یہ بھی پڑھیے
مودی سرکار کے مظالم کا نشانہ بننے والے مسلمان صحافی محمد زبیر ضمانت پر رہا
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایک رات مجھے باتھ روم کی حاجت ہوئی توان لوگوں نے مجھے اپنا باتھ روم استعمال نہیں کرنے دیا اورکہا کہ باہر جاکر حاجت پوری کرو تو میں نے سوچا نام بدل کر کیا فائدہ جب آپ ان کا باتھ روم بھی نہیں استعمال کرسکتے ہیں۔
نیوزاسٹوری میں بتایا گیا کہ ہندوستان کے گھریلوملازمین کو عام طورپرذات پات کی بنیاد پرامتیازی سلوک اوریہاں تک کہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ انہیں باورچی خانے، باتھ رومز تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ کھانے کے برتن بھی الگ رکھے جاتے ہیں۔
نئی دہلی میں شہری مہیلا کامگار یونین (اربن ڈومیسٹک وومن ورکرز یونین) کی کارکن اور جنرل سکریٹری انیتا کپور کے مطابق مسلم گھریلو ملازمین کو اپنی مذہبی شناخت چھپانے کی وجہ سے مزید پسماندگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
رپورٹ میں ایک مسلم خاتون شاہانہ بیگم کا حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے بچپن کا ایک واقعہ سنایا کہ جس میں وہ اپنی خالہ کے ہمراہ انکی ملازمت والے گھر گئیں اور انہوں نے السلام علیکم کہا تو خالہ نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ نمستے کہو۔
یہ بھی پڑھیے
بلقیس بانو ریپ، قتل کیس کے11 سزا یافتہ مجرموں کو حکومتی معافی مل گئی
الجزیرہ نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایک ہندو خاتون کہتی ہیں کہ والدین کے دباؤ کی وجہ سے اپنی کمیونٹی کے ملازمین رکھنے پر مجبور ہیں تاہم وہ مذہب، ذات پات کے بھید بھاؤ پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔
ایک ہندو سماجی کارکن نے الجزیرہ کوبتایا کہ مسلمان اب ایسے نام رکھنے پر مجبور ہیں جوکہ دونوں مذاہب میں استعمال ہوتے ہوں تاکہ انہیں ملازمت کے حوالے سے مشکلات پیش نہ آئیں ۔