اسلام آباد ہائی کورٹ میں مختلف کیسز کی سماعت، رہنمائی کے لیے اٹارنی جنرل طلب
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے خالد جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ پیکا آرڈیننس کو دیکھ لیں دنیا کہیں اور جارہی اور آپ کی حکومت کہیں اور۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست، محسن بیگ کی اہلیہ اور پیکا آرڈیننس سے متعلق دیگر درخواستوں کی سماعت کی۔
درخواست گزاروں کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے پیکا قوانین میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جب کہ ایک دن پہلے تک ایوان بالا کا اجلاس جاری تھا ، حکومت نے ڈرافٹ پہلے ہی تیار کرلیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
وزیراعظم عمران خان کی روس کے صدر پیوٹن سے ون آن ون ملاقات
روس کا یوکرین پر حملہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو لے بیٹھا
حکومت نے قانون سازی سے بچنے کیلئے سیشن کے ختم ہونے کا انتظار کیا گیا۔ وکلاء کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا مطالبہ کرتا ہے، آئین میں اظہار رائے کی آزادی شامل ہے، موجودہ حکومت کے دور میں میڈیا کو بند کیا جا رہا ہے، صحافیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
وکلاء کا مزید کہنا تھا کہ نیا ترمیمی آرڈیننس حکومت کے خلاف خبریں اور تنقید کی حوصلہ شکنی کے لئے لایا گیا۔ پیکا قانون میں ترمیم کے آرڈیننس کے اجرا کیلئے کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی، اس قانون میں ترمیم کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جا سکتا تھا، حکومت کی جانب سے جلد بازی حکومت کے مذموم مقاصد ظاہر کرتی ہے۔
وکلاء نے عدالت سے استدعا کی کہ اس قانون اور ترمیم کو آئین پاکستان اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوکر کہنا تھا کہ آپ کو اس لیے بلایا کہ سنگین معاملہ ہے، دنیا کہیں جا رہی ہے اور حکومت کہیں اور۔ پیکا آرڈیننس دیکھ لیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ایک جمہوری ملک نہیں ہے، ایف آئی اے نے بھی ایس او پیز کے برخلاف کام کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ کیوں نا یہ عدالت سیکشن 20 کو ختم کر دے۔
ایف آئی اے 14 ہزار شکایت پر بتائے کہ کتنے پر عمل درآمد کسی سیاسی مداخلت کے بغیر کام کیا ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت آرڈیننس کو بہتر بنا سکتی تھی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس پارٹی نے بھی پیکا قانون چیلنج کیا جس نے ماضی میں قانون بنایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ جو درخواستیں دائر ہوئی ہیں بالکل صحیح ہے، دنیا ڈیفامیشن کے قانون کو ختم کرنے جاری ہے ، ہمارے ہاں 2010 میں اس قانون کو شامل کیا گیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کے خلاف ایف آئی اے نے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹیاں پیکا کے خلاف پارلیمنٹ جائیں۔ سینیٹ میں تو اپوزیشن کی اکثریت ہے، عدالت کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام کرے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے، عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے، حکومت پیکا آرڈیننس سے قید و بند کو ختم کر دیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گرفتاری اور قید وبند کو چھوڑ دیں تو پھر آرڈیننس میں کیا رہے گا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے بہت صبر تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ قانون کے برعکس قانون سازی کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت کو کس بات کی جلدی تھی، چیف جسٹس اطہر من اللہ کی یوگنڈا کا حوالہ دیا کہ وہاں ہتک عزت کا قانون نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے اسپین کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ عوامی نمائندے کیوں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت عدالت دے، جس پر عدالت نے آئندہ سماعت تک سیکشن 20 پر حکم امتناع میں توسیع کر تے ہوئے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کر دی۔









