پاکستان انفارمیشن کمیشن کے تینوں افسران ریٹائر، عوام کی معلومات تک رسائی ناممکن

نیوز 360 کی اطلاعات کے مطابق پی آئی سی 7 نومبر سے غیر فعال  ہوچکا ہے، کیونکہ اس کے دو ارکان کی 4 سالہ مدت ختم ہو چکی ہے اور وہ بھی 16 نومبر کو ریٹائر ہوگئے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کا اہم ادارہ تینوں ممبران کی ریٹائرمنٹ کے بعد عملاً غیر موثر ہوگیا ۔وفاقی حکومت نے بار بار ادارے کی جانب سے خط لکھنے کے باوجود نئے ممبران کی تقرری کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔جس کے سبب عوام اطلاعات تک رسائی کے آئینی حق سے محروم ہوگئے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے تینوں ممبران ریٹائر

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے پہلے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم، انفارمیشن کمشنر فواد ملک اور زاہد عبداللہ تقرری کی مدت مکمل ہونے پر اپنے عہدوں سے ریٹائر ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ سے کامران مرتضیٰ کی لانگ مارچ کے خلاف دائر درخواست مسترد

پریشانیوں سے بچنے کے لیے جسمانی اور نفسیاتی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے، ماہرین

محمد اعظم نے چار برس تک چیف انفارمیشن کمشنر کے طور پر فرائض سر انجام دیئے، اس سے قبل وہ وفاقی سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات اور گلگت بلتستان سپریم کورٹ میں رجسٹرار کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔

بار بار توجہ دلائی،عمل ندارد

کمیشن کے رکن زاہد عبداللہ نے نیوز 360 کو بتایا کہ پی آئی سی 7 نومبر سے غیر فعال  ہوچکا ہے، کیونکہ اس کے دو ارکان کی 4 سالہ مدت ختم ہو چکی ہے اور وہ بھی 16 نومبر کو ریٹائر ہوگئے۔

 انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے وزارت اطلاعات نے نئے اراکین کی تقرری کا عمل شروع نہیں کیا 5 ستمبر کو چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے نئے اراکین کی تقرری کے لیے وزارت کو خط لکھا لیکن ادارے کو کوئی جواب نہیں دیا گیا، 14 نومبر کو انہوں نے بھی انفارمیشن سیکرٹری کو یاد دہانی کے لیے بھی خط لکھا، جس کی کاپی متعلقہ وزیر کو بھی بھیجی گئی مگر جواب ندارد ۔

کمیشن غیر موثر ہوگیا

زاہد عبداللہ کا کہنا تھا کہ کمیشن غیر موثر ہوگیا ہے اور اس طرح پاکستانی عوام کو معلومات تک رسائی کے آئینی حق سے محروم کیا جارہا ہے.

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق محمد اعظم کی سربراہی میں، پی آئی سی نے شہریوں کی جانب سے دائر اپیلوں کی پیروی میں 700 سے زائد فیصلے سنائے، جن میں سے 143 محمد اعظم ،245 سابق انفارمیشن کمشنر فواد ملک اور 333 سابق انفارمیشن کمشنر زاہد عبداللہ نے تحریر کئے۔

سب سے زیادہ درخواستیں وزارت دفاع سے متعلق

پاکستان انفارمیشن کمیشن کوشہریوں کی جانب سے چار برس میں 2 ہزار 474 درخواستیں موصول ہوئیں۔جن میں سب سے زیادہ درخواستیں وزارت دفاع  سے متعلق موصول ہوئیں جس کے بعد وزارت خزانہ،  کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) ، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ، کابینہ ڈویژن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)  سے متعلق تھیں۔ عوام کی جانب سے وزارت قانون، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں بھی تفصیلات جانے سے متعلق درخواستیں بھجوائی گئیں۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چار برس اور کارکردگی

پاکستان انفارمیشن کمیشن کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق 7 نومبر 2018 کو اپنے قیام کے بعد سے کمیشن معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ادارہ شہریوں کو وفاقی وزارتوں، کمیشن اور آئینی اداروں وغیرہ سے معلومات حاصل کرنے میں درپیش مشکلات کم کرنے کے لئے کردار ادا کررہا  ہے.

توشہ خانہ کیس اور دیگر اداروں سے متعلق معلومات

توشہ خانہ کیس،سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہیں اور مراعات سمیت کئی اہم اداروں سے متعلق معلومات نہ ملنے پر کمیشن نے ایکشن لیا جب کہ معلومات نہ دینے پر کئی اداروں کے افسران کو جرمانہ بھی کیا جاچکا ہے۔

11سو 57درخواستیں زیر التوا

پاکستان انفارمیشن کمیشن کوگزشتہ 4 برسوں میں موصول ہونے والی 2 ہزار 474 اپیلوں میں سے 2 ہزار 153 درخواستیں ڈاک کے ذریعے اور 321 ای میل کے ذریعے انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم پر موصول ہوئیں، ان میں سے ایک ہزار 30 درخواستوں پر عمل مکمل کیا گیا جب کہ 11سو 57درخواستیں زیر التوا ہیں۔

درخواست گزاروں کو فراہم کردہ معلومات اور کیس کلوزر سرٹیفکیٹ درخواست گزاروں اور جواب دہ اداروں کے ساتھ شیئر کیے گئے تاہم انفارمیشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق50 فیصد سے زیادہ درخواستوں پر پبلک سیکٹر کے اداروں سے معلومات حاصل نہیں کی جاسکیں یا تاحال ان درخواستوں پر عمل جاری ہے مگر اس دوران کمیشن کے تمام ارکان کی مدت مکمل ہونے کے سبب کمیشن غیر فعال ہو چکا ہے۔

سرکاری اداروں کا معلومات فراہم کرنے سے انکار

انفارمیشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، نادرا، نیب، وزارت اطلاعات، وزارت خارجہ، توانائی، داخلہ، انسانی حقوق، تعلیم، موسمیاتی تبدیلی، الیکشن کمیشن آف پاکستان، ہائر ایجوکیشن کمیشن، آئیسکو، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ، وزیر اعظم سیکرٹریٹ، سینیٹ سیکرٹریٹ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ایس این جی پی ایل، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور او جی ڈی سی ایل ان اداروں میں شامل ہیں جنہوں نے معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا.

معلومات تک رسائی کا حق ، جمہوریت کی بنیاد

معلومات تک رسائی کا قانون، مہذب جمہوری معاشروں کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے سرکاری محکموں کے احتساب کا پہلو نکلتا ہے کیونکہ احتساب ہوگا تو شفافیت بڑھے گی جس سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا اور حکومت کو اپنی کارکردگی جانچنے اور اسے بہتر بنانے کا موقع ملتا ہے جس سے عوام مطمئن ہوتے ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان 120 ممالک میں ہوتا ہے جہاں معلومات تک رسائی کا قانون موجود ہے جس کے تحت کوئی بھی پاکستانی شہری سرکاری اداروں سے متعلق معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

"دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017”

قومی اسمبلی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں منظور شدہ "رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002” کو تبدیل کرتے ہوئے "دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017” پاس کیا تھا، جس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نافدالعمل ہے۔

آئین کا آرٹیکل 19 اور معلومات کا حصول

اٹھاریوں ترمیم میں پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے کو شامل کیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں شفاف اور بہتر گورننس کے لیے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ضروری ہے جو سرکاری معلومات کو عام کرنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔

انفارمیشن کمیشن کو فعال اور موثر بنانے میں حکومتی غیر سنجیدگی

حکومت اطلاعات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ انفارمیشن کمیشن کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے جب کہ نئے ارکان کی تقرری نہ کرنے کے باعث اب تو یہ کمیشن عملاً غیر موثر ہوگیا ہے۔

سرکاری معلومات کا حصول شہریوں کا حق

معلومات تک رسائی کا حق اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف نمبر 16 کے تحت آتا ہے جو رکن ممالک کو 2030 تک درجہ حاصل کرنے کا پابند بناتا ہے.

سرکاری ادارے دس روز میں معلومات دینے کے پابند

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق  سرکاری محکمے کسی بھی شہری کی جانب سے معلومات کے حصول کی درخواست کے 10 روز کے اندر مطلوبہ معلومات دینے کے پابند ہیں۔ تاہم شرط یہ ہے کہ متعلقہ معلومات سے متعلق کوئی قانونی پابندی یا استثنٰی نہیں۔

درخواست دہندہ کو اگر یہ معلومات 10 روز کے اندر فراہم نہیں کی جاتیں یا شہری اس سے مطمئن نہیں تو وہ اس ضمن میں پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔جس پر کمیشن 60 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔

براہ راست یا آن لائن بھی کمیشن سے رجوع کیا جاسکتا ہے

کمیشن کے ذرائع کے مطابق یہ اپیل تحریری طور پر براہ راست یا آن لائن بھی کمیشن کو ویب سائٹ کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔

درخواست دہندہ کو معلومات کے حصول کا مقصد بتانے کی ضرورت نہیں

کمیشن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق کمیشن کو اپیل دائر کرنے کے لیے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے کوئی بھی شہری یہ اپیل ذاتی حیثیت میں کمیشن میں دائر کر سکتا ہے۔درخواست دینے والے شہری کو یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ معلومات کس مقصد کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔

سرکاری ادارے معلومات ویب سائٹ پر دینے کے پابند

اطلاعات تک رسائی کے قانون میں یہ بھی لازم ہے کہ تمام سرکاری ادارے اپنے محکمے کے بارے میں ابتدائی معلومات اپنی ویب سائٹ پر رکھنے کے پابند ہیں۔ تاہم کئی اداروں نے تاحال اس پر عمل نہیں کیا۔

اطلاعات تک رسائی ،عوام میں آگاہی کی ضرورت

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ وفاق اور پاکستان کے چار میں سے تین صوبوں میں اطلاعات تک رسائی کے قوانین موجود ہیں (سوائے بلوچستان کے) لیکن ان کے نفاذ اور اس قانون سے متعلق عوام میں آگاہی بہت کم ہے۔کئی سرکاری ادارے ایسے ہیں جنہوں نے تاحال فوکل پرسن تک تعینات نہیں کیے۔

معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت سرکاری اداروں کے پاس بعض معلومات کو عام نہ کرنے کے لیے استثنٰی بھی حاصل ہے جس کی تفصیل اس قانون میں بھی موجود ہے۔

ہر ادارہ اطلاعات تک رسائی کا پابند

قانون کے مطابق قومی سلامتی کے امور سے متعلق معلومات، مثلاً دفاعی تنصیبات، پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔البتہ، فوجی اداروں کی فلاح و بہبود سے متعلق اور ان پر آنے والے اخراجات سے متعلق معلومات کے حصول پر کوئی پابندی نہیں۔

اطلاعات تک رسائی کا قانون اور چیلنجر

قانونی ماہرین کے مطابق اصل چیلنج سسٹم سے 1923 کے آفیشل سیکریٹریٹ ایکٹ کو نکالنا ہے۔ بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ تمام سرکاری معلومات خفیہ ہیں۔ معلومات تک رسائی کے قانون کی ابتدا سویڈن میں 1766 میں ہوئی تھی۔ یعنی جس قانون کو ہم آج بھی ماننے کو تیار نہیں سویڈن میں وہ 1766 سے نافذ العمل ہے۔ ہمارے قانون کی بنیادیں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2002 میں ملتی ہیں جب ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو انصاف تک رسائی کے تحت چار کروڑ ڈالر یہ قانون بنانے کی شرط کے ساتھ دیے جس پر راتوں رات آرڈیننس نافذ کر دیا تاہم 2010 اور پھر 2017 میں اس معاملے پر مثبت پیش رفت ہوئی۔

متعلقہ تحاریر