عرب ممالک کی ناراضگیاں؛ آئی ایم ایف سے مالی امداد ناممکن ہوگئی
حکومت اور آئی ایم ایف مذاکرات کو 40 روز گزرنے کے بعد بھی اسٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوا جس کی بنیادی وجہ سعودی عرب کی پالیسی تبدیلی ہے، سعودیہ نے پاکستان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں
حکومت اور آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز) کے تکنیکی مذاکرات کو ختم ہوئے چالیس دن ہوچکے ہیں تاہم اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے معاہدے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
انگیریز آخبار بزنس ریکارڈر کے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستانیوں کے لیے حج کی ادائیگی مزید مشکل، اخراجات میں 3 لاکھ روپے اضافہ
بزنس ریکارڈر میں شائع علی خضر کے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور آئی ایف ایف کے درمیان مذکرات ختم ہوئے 40 روز پوگئے تاہم اسٹاف لیول معاہدے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔
کالم نگار نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہی ہے اور اپنی ناکامیوں پر آئی ایم ایف کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرہی ہے۔
علی خضر نے کہا کہ حکومت کے ارادے اب اتنے بھیانک نہیں رہے، جیسا کہ غیر ہدفی اور قیمتوں کو بگاڑنے والی سبسڈی کے حالیہ اعلان سے ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ وزیر اعظم نے خود اعلان کیا کہ آئی ایم ایف ڈیل دس دنوں میں نہیں ہو سکتی، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ اور وزیر خزانہ پہلے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف ڈیل 2-3 دنوں میں ہو جائے گی۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں یہ سرگوشیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے جوہری اثاثوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ تحقیقات کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی بات چیت وزارت خزانہ کی طرف سے شروع کی گئی تھی۔
ملک میں افواہیں پھیلنےسے اتحادیوں کے ایک سینیٹر نے عوامی طور پر اسٹریٹجک جوہری اثاثوں کو لاحق خطرات کے بارے میں وضاحت کا مطالبہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سازشی تھیوری کو ہوا دی گئی، اور بعد میں آئی ایم ایف کو کو وضاحت جاری کرنی پڑی۔
ایک اور معاملے میں، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات میں تاخیر کی وضاحت سیکرٹری خزانہ کو بھیجی گئی جس میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت عائد مالی پابندیوں کی وجہ سے انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز دستیاب نہیں تھے۔
اس حوالے سے ایک بار پھر آئی ایم ایف حکام نے ایسے تمام دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا کہ ہم نے ایسی کوئی پابندی عائد کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ حکومت کو یہ تصورات بیچنا بند کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے
ٹویوٹا انڈس موٹر نےاپنی پیداوار 3دن کیلیے بند کردی
پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کی حکومت، خاص طور پر اسحاق ڈار کے ماتحت وزارت خزانہ کو عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کے باوجود آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔
علی خضر نے لکھا کہ اب تقریباً تمام شرائط پوری ہو چکی ہیں۔ توانائی کی قیمتوں بڑھائی گئی ہے، جی ایس ٹی میں اضافہ کیا، نئے ٹیکس لگائے گئے، کرنسی کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے، اور شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ پھر بھی پروگرام کی بحالی ہم سے دور ہے۔
مضمون نگار نے لکھا کہ حکومت فنانسنگ کے فرق کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی یقین دہانی مفتاح اسماعیل کے وزیر خزانہ کے دور میں گزشتہ جائزے میں کی گئی تھی۔
اس وقت، سعودی اور جی سی سی کے دیگر شراکت داروں نے آئی ایم ایف کے بورڈ میٹنگ میں زبانی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ گروی رکھے ہوئے ڈپازٹس کو انجیکشن دیں گے یا کسی اور شکل میں فنڈز فراہم کریں گے۔
انہؤ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ نہ ہونے پاکستان کا اندرونی تنازعہ ہو سکتا ہے جس کا قرض دینے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ملک کے مقبول ترین رہنما کے ساتھ جھگڑا ہونا میکرو اکنامک اور سیاسی استحکام کو بحال کرنے میں مدد نہیں کر سکتا۔
شاید یہ دیکھ کر جی سی سی ممالک پاکستان کی معیشت میں پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں۔ یہ سعودی وزیر خزانہ کے چند ماہ قبل ڈیووس میں دیے گئے بیان کے مطابق ہے، جہاں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ مملکت امداد فراہم کرنے کے طریقے کو تبدیل کر رہی ہے۔
ماضی میں غیر مشروط طور پر فراہم کی جانے والی براہ راست گرانٹس اور ڈپازٹس سے الگ ہو رہی ہے۔ سعودی خارجہ پالیسی کے مطالبات کو پورا کرنے یا اسے پورا کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔