ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ کیا تو پاکستان کو 18ارب ڈالر جرمانہ ہوگا
اگر امریکا گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری نہیں دیتا، تو اسے جرمانہ ادا کرنا چاہیے، امریکا کو دہرے معیارات کو ختم کرنا ہو گا، وہ بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نرمی برت رہا ہے اور پاکستان کو سزا دے رہا ہے، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصونہ مکمل نہ کیا تواسے 18 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہا ہے کہ اگر امریکا، پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی منظوری نہیں دیتا، تو اسے جرمانہ ادا کرنا چاہیے، امریکا کو دہرے معیارات کو ختم کرنا ہو گا، وہ بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اسی چیز کی سزا دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سوئی سدرن اور نادرن کا ٹرانسمیشن لائنز میں 113 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا منصوبہ
وزارت توانائی کی دو کمپنیز کی قانونی جنگ؛ سوئی نادرن پر 24 ارب روپے جرمانہ
روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ان خیالات کا اظہار وزارت خارجہ کے اس خط کے بعد کیا جس میں انہیں آگاہ کیا گیا ہےکہ امریکی سفیر کی اپنے ملک سے واپسی کے بعد ان سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے گا۔یہ خط یکم مارچ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی بات چیت سے پیدا ہونے والی تشویش کے جواب لکھا گیا ہے۔
وزارت خارجہ نے موقف اپنایا ہے کہ ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر یہ وزارت تمام ممکنہ آپشنز پر غور کررہی ہے جس میں ایران اور امریکا سمیت متعلقہ فریقین کے ساتھ قریبی روابط اور بامعنی تبادلے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پٹرولیم ڈویژن کی ایک تکنیکی ٹیم نے جنوری میں تہران کا دورہ کیا تاکہ آئی پی گیس پراجیکٹ کے فروغ کے طریقوں اور ذرائع پر تبادلہ خیال کیا جا سکے، وزیر اعظم کے دفتر نے تمام شراکت داروں کے بین الوزارتی اجلاس اور آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے پر آگے بڑھنے کے لیے ایکشن پلان پر اتفاق کیا ہے۔
روس سے پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری سے متعلق سوال کے جواب میں وزارت خارجہ نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ خام تیل کے ٹیسٹ کارگو کی خریداری کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے جو جلد پاکستان پہنچ جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پاک اسٹریم پائپ لائن منصوبے کے لیے پرعزم ہے، دونوں فریق بقایا مسائل پر بات چیت کر رہے ہیں۔
کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ وہ دو پیٹرولیم کمپنیوں کی جانب سے کیے گئے ’غبن کی رقم‘ کی وصولی کرے جس نے نجی سرمایہ کاروں اور قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچایا۔دو کمپنیوں بائیکو اور ہیسکول نے ابھی تک عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس نہیں کیا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ دونوں کمپنیوں کے مالکان ایگزٹ کنٹرول لسٹ م نام شامل ہونے کے باوجود ملک چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ بائیکو کے قومی خزانے پر 57 ارب روپے واجب الادا ہیں تاہم اب تک صرف 3.9 ارب روپے کی وصولی ہوئی ہے۔
نور عالم خان نے معمولی ریکوری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی پٹرولیم ڈویژن کو پہلے ہی ہدایت کر چکی ہے کہ غبن شدہ رقم کی وصولی میں نرمی نہ برتی جائے لیکن وہ نادہندگان سے بات چیت کر رہے ہیں۔
نور عالم نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ بائیکو کے مالک کو گرفتار کرکے ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں اور غبن کی گئی رقم کی وصولی کے لیے اس کے اثاثے فروخت کریں۔
دریں اثنا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت پیٹرولیم سے کہا کہ وہ غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے گیس کے بلوں سے ایڈجسٹمنٹ فیس کی مد میں لیے جانے والے 500 روپے سے دستبردار ہو جائے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نئے گیس میٹروں کی تنصیب پر پابندی کو واپس لینے کی بھی تجویز پیش کی کیونکہ اس سے چوری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
نور عالم خان نے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو ہدایت کی کہ صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا اور بیوروکریٹس کو دی جانے والی مراعات کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل نے ابھی تک مسلح افواج کے سینئر افسران کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں۔