پاکستان میں صرف 5 شعبوں میں سالانہ 956 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف
500 ارب کیساتھ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ٹیکس چوری میں سب سے آگے، سگریٹ انڈسٹری240ارب،ٹائرز اینڈلیوبریکنٹس انڈسٹری106ارب ، فارماانڈسٹری65ارب اور چائے کاشعبہ سالانہ 45ارب روپے ٹیکس چوری کرتا ہے، اپساس کی رپورٹ
![tax envasion in pakistan, ٹیکس چوری](https://news360.tv/wp-content/uploads/2023/06/tax-envasion-in-pakistan.jpg)
بین الاقوامی تحقیقی ادارے اپساس کی جانب سے پاکستان میں ٹیکس چوری سےمتعلق رپورٹ میں صرف5 شعبہ جات میں سالانہ 956ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشا ف ہوا ہے۔
رپورٹ کےمطابق 500 ارب کیساتھ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ٹیکس چوری میں سب سے آگے، سگریٹ انڈسٹری240ارب،ٹائرز اینڈلیوبریکنٹس انڈسٹری106ارب ، فارماانڈسٹری65ارب اور چائے کاشعبہ سالانہ 45ارب روپے ٹیکس چوری کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت کا بجٹ میں پٹرولیم لیوی میں 10 سے 20 روپ تک اضافے کا امکان
تاجر برادری نے مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا
پاکستان میں ٹیکس چوری سے متعلق اپساس کی رپورٹ کے مطابق رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری کمزور قانون سازی، پراپرٹی کی خریداری میں ہیر پھیر اور نقد لین دین سے ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ڈاکومنٹیشن اور قوانین کے نفاذ سے ٹیکس وصولی کی مد میں مزید 500 ارب تک حاصل ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید انکشاف ہو اہے کہ سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری سے سالانہ 240 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ مقامی سطح پر تیار کردہ ٹیکس چوری شدہ سگریٹ پاکستان میں سگریٹ کی مجموعی مارکیٹ کا 38 فیصدہیں جبکہ اسمگل شدہ سگریٹ برانڈز کا اس وقت مارکیٹ شیئر 10 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
اپساس کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کل مارکیٹ کا 48 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ یعنی پاکستان میں اس وقت سالانہ 40 ارب سگریٹ غیر قانونی طور پر فروخت ہو رہے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، ٹائروں کی مارکیٹ کا 65 فیصدحصہ غیر قانونی یا اسمگل شدہ ٹائروں پر مشتمل ہے جبکہ اس وقت کل کھپت کا صرف 20 فیصد مقامی طور پر تیار کیاجا رہا ہے اور 15 فیصد قانونی طور پر درآمد کیا جاتا ہے۔
2022 کے ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق قانونی ٹائر انڈسٹری 20ارب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کئے گئے تھے۔ماہرین کے مطابق ٹائر کی درآمد کا 25 فیصد انڈر انوائس ہے جس سے حکومت کو مجموعی طور پر 50 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہورہاہے۔
رپورٹ کے مطابق لبریکنٹس انڈسٹری نے پچھلے مالی سال میں 187 ارب روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔اس وقت لبریکنٹس انڈسٹری کا 70 فیصد مارکیٹ شیئر قانونی جبکہ30 فیصد مارکیٹ غیر قانونی ہے۔ غیر قانونی لبریکنٹس کی تجارت پر قابو پانے سے حکومتی خزانے میں 56 ارب روپے کا اضافہ ممکن ہے۔مجموعی طور پر اس وقت ٹائر اور آٹو لبریکینٹ سیکٹر میں کل 106 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فارماسیوٹیکل سیکٹر غیر قانونی ادویہ کے باعث قومی خزانے کو سالانہ قریباً 60 سے 65 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی اہم وجہ غیر رجسٹرڈ اور غیر لائسنس یافتہ فارمیسی سیکٹر اور غیر قانونی ادویات سے متعلقہ اداروں کی جانب سے قوانین پر عمل درامد نہ کروانا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت چائے کے شعبے میں ٹیکس چوری کا تخمینہ 45 ارب روپے سالانہ ہے۔ اپساس کی رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر درآمد کنندگان ملک کی چائے کی تقریباً 55 سے 60فیصد طلب پوری کرتے ہیں جبکہ چھوٹے تاجر بقیہ 40 سے 45 فیصد طلب کو پورا کرتے ہیں۔
رپورٹ کی تجاویز کے مطابق صرف ان پانچ شعبوں میں 956 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری پر قابو پانے سے پاکستان پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کی کل لاگت کو پوراکیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس رقم سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مکمل مالی اعانت بھی کی جاسکتی ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ صرف ان پانچ شعبوں میں ٹیکس چوری روکنے سے وفاقی تعلیمی بجٹ میں 10 گنا اضافہ کیا جا سکتا ہےجبکہ صرف یہی رقم مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے بھی کافی ہے۔ 956 ارب روپے کی یہ رقم 1700 کلومیٹر سے زائد موٹر ویز کی تعمیر کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔