تاجر تنظیموں نے ٹیکس اہداف کو ناقابل وصول اور بجٹ کو حقائق کے منافی قرار دیدیا

9.2 کھرب روپے کا ریونیو ہدف نہ صرف مشکل بلکہ دور رس منفی نتائج کا سبب بنےگا، صدر ایف پی سی سی آئی: صنعت پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا حکومتی دعویٰ سپر ٹیکس میں اضافے  کی شکل میں جھوٹا ثابت ہوا ہے، سی ای او پاکستان بزنس کونسل: او آئی سی سی آئی نے بٹ کو عبوری قرار دیدیا، 9 سینٹ کے توانائی ٹیرف کے مسئلے کو حل کرنے کیلیے بجٹ میں کچھ نہیں بتایا گیا، اپٹما

ملک کی سرکردہ تاجر تنظیموں نے 9.2کھرب روپے کی محصولات کے ہدف کو ناقابل وصول اور وفاقی بجٹ کو حقائق کے منافی  قرار دے دیاتاہم زراعت اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے اعلان کردہ اقدامات کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز( ایف پی سی سی آئی) کے صدر عرفان اقبال شیخ نے کہا ہے کہ حکومت نے معیشت کی حقائق کے منافی صورت گری کی ہے  جبکہ بجٹ کیلیےمقرر کردہ اہداف بھی غیر حقیقی نظر آتے ہیں۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہےکہ تاجربرادری کو فنانس بل میں پوشیدہ ٹیکسز کا سامنا کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

اسحاق ڈار نے 14 ہزار 460 ارب روپے کے حجم کا بجٹ 2023-24 پیش کردیا

دباؤ کم ہوگیا، پاکستان روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں کریگا، فچ

ایف پی سی سی آئی کے صدر  نے مزید کہاکہ 9.2 کھرب روپے کا ریونیو ہدف نہ صرف مشکل نظر آتا ہے بلکہ اس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوں گے، گزشتہ سال کا 7.5 کھرب  روپے کا ہدف ابھی تک حاصل نہیں کیا جا سکا۔

انہوں نے  کہاکہ اقتصادی ترقی کی شرح 6 فیصد کے قریب تھی جو اس سال 0.29 فیصد تک گر گئی لہٰذا اقتصادی ترقی کی بہت کم کارکردگی پر مزید ٹیکس کیسے لگائے جا سکتے ہیں؟

ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے کہا کہ حکومت نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے  پہلے سے دباؤ کا شکار ٹیکس دہندگان سے مزید رقم حاصل کرنے کے لیے نئے ٹیکس عائد کر رہی ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب تک شرح سود، شرح مبادلہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم نہیں ہوں گی، معیشت کام نہیں کرے گی۔

تاہم عرفان اقبال شیخ نے بجٹ میں اعلان کردہ کچھ اقدامات کو سراہا ہےجن میں غربت کے خاتمے کے لیے قرض اسکیم کاحجم 1800 ارب روپے سے بڑھا کر 2055 ارب روپے کرنا، ٹیوب ویلز  کیلیے  شمسی توانائی اور بیجوں  پر ڈیوٹی کا خاتمہ اور نوجوانوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں 50 فیصد کمی شامل ہے۔

انہوں نے کہاکہ  انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کو ایس ایم ایز کا درجہ دیا گیا ہے جو یقینی طور پر مقامی سطح  اور برآمدات  کے شعبے میں  آئی ٹی کی ترقی کا باعث بنے گا۔

پاکستان بزنس کونسل کے  چیف ایگزیکٹو احسان ملک نے وفاقی بجٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ”یہ غیر معمولی لمحات میں معمول کے مطابق بجٹ ہے،اس بجٹ میں ٹیکس سےآزاداور کم ٹیکس والے شعبہ جات، ہول سیل، ریٹیلرز اور ریئل اسٹیٹ  کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے   بنیادی اصلاحات کا موقع گنوادیا گیا ہے  ۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس کے دائرے کووسیع کرنے کے لیے نان فائلرز اور نادرا کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ انڈر انوائسنگ کو روکنے کے لیے  بھی کچھ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا صنعت پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا دعویٰ سپر ٹیکس میں اضافے  کی شکل میں جھوٹا ثابت ہوا ہے  اور یہ بھی مکمل طور پر ترقی پسند طریقہ نہیں ہے۔

احسان ملک نے بھی بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ کچھ اچھے اقدامات پر اعتماد کرتے ہوئے، مسٹر ملک نے کہا کہ  بیجوں اور میکانائزیشن  کے ذریعے زراعت پر توجہ ، آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی برآمدات کو فروغ دینا احسن اقدام ہے جبکہ   لسٹڈ کمپنیوں پر کم از کم ٹیکس میں کمی درست سمت میں ایک قدم ہے۔

احسان ملک نے بھی ٹیکس وصولی کے اہداف کو غیرحقیقی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کو مالیاتی خسارے پر دباؤ کاموجب قرار دیتے ہوئے کہاکہ ایک منی بجٹ ناگزیر ہے۔

اوورسیز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے سیکریٹری جنرل  عبدالعلیم نے وفاقی بجٹ  کو عبوری بجٹ  قراردیدیا۔انہوں نے کہا کہ  کچھ شعبوں کے لیے قلیل مدتی ٹیکس  اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ ایک عبوری بجٹ معلوم ہوتا ہے  جس میں معیشت کو مستحکم کرنے والے اقدامات کا فقدان  ہے ۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) کے صدر کاشف انور نے کہا کہ صنعتی شعبے کے مسابقتی توانائی ٹیرف اور دیگر مطالبات پورے نہیں کیے گئے تاہم  انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے لیے بجٹ تجاویز  کو بہتر قرار دیا۔

انہوں نے کہاکہ”ہم اس بجٹ کو آئی ٹی سے وابستہ  کاروبار اور زراعت دوست کے طور پر دیکھتے ہیں، یہ بھی اچھی بات ہے کہ ایل سی سی آئی کی مختلف تجاویز کو قبول کر لیا گیا ہے “۔

انہوں نے کہاکہ”آئندہ مالی سال میں 30 ارب ڈالر کی برآمدات اور 33 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے حصول کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں،ہم اس سلسلے میں ایکسپورٹ کونسل کے قیام کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں“۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل شاہد ستار نے کہا کہ برآمدی صنعت کے لیے 9 سینٹ کے مسابقتی علاقائی توانائی ٹیرف کا مطلب بہت ہے، لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بجٹ میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔

متعلقہ تحاریر