نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں 1 روپے 25 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا
نیپرا کی جانب سے تازہ ترین اضافے کا اطلاق تمام تر صارفین پر لاگو ہوگا۔ لائف لائن صارفین اور کے-الیکٹرک صارفین پر تازہ ترین اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا۔

مہنگائی کی ماری ہوئی عوام کو ایک اور بجلی کا جھٹکا ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے منگل کےروز مالی سال 2022-23 کی آخری سہ ماہی (اپریل تا جون) کی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی کے نرخوں میں 1.25 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (Discos) نے ریگولیٹری اتھارٹی سے قیمتوں میں اضافے کی درخواست کی تھی جو جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں کے بلوں میں وصول کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے
پی ڈی ایم حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کو متعدد یقین دہانیاں کروا دیں
سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر میں 53 کروڑ ڈالر کا اضافہ، اسٹیٹ بینک
نیپرا کی جانب سے تازہ ترین اضافے کا اطلاق تمام تر صارفین پر لاگو ہوگا۔ لائف لائن صارفین اور کے-الیکٹرک صارفین پر تازہ ترین اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
نیپرا کی جانب سے حالیہ کارروائی اس موقع پر کی گئی جب ملک میں افراط زر کی شرح اس وقت بلند ترین سطح پر ہے۔
معاشی ماہرین آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 3 ارب ڈالر کے معاہدے کو سخت گرمی میں برفانی تودے سے جوڑ رہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ، کیونکہ ڈیل کے نتیجے میں ایسی شرائط منظور کی گئی ہیں جو بلاشبہ پہلے سے مہنگائی کی ماری عوام پر مزید بوجھ ڈالیں گی۔
اس بات کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت 12 جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل توانائی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دے گی۔ مگر کیوں؟ کیونکہ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دونوں فریقوں کے درمیان اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کو حتمی منظوری دے گا۔
اس لیے پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا کے سرفہرست قرض دہندہ کے قائم کردہ اہداف کو پورا کرے ، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی معاہدے کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے شہباز شریف حکومت سخت فیصلے کرنے جارہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 3.50 روپے اور گیس کے نرخوں میں 45 سے 50 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
یہ اقدام یقینی طور پر عوام کے لیے ایک تکلیف دہ ہو گا، جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں ادھ مرے ہوئے ہوئے ہیں۔ مجوزہ اضافہ ناقابل برداشت ردعمل کو جنم دے سکتا ہے۔









