‘کوک’ پہنچنے والی میشا ‘کورٹ’ سے غیر حاضر

کورٹ کے بلاوے پر میشا شفیع کینیڈا سے پاکستان نہیں آتیں لیکن کوک اسٹوڈیو اور ویلوو ساؤنڈ اسٹیشن کی دعوت پر فورا پہنچ جاتی ہیں۔

علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان تنازع اپنے منطقی انجام پر پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ایک فریق کے حمایتی کم اور دوسرے کے بڑھتے نظر آرہےہیں۔

سنیچر کے روز عدالت نے میشا شفیع کو جرح کے لئے طلب کیا لیکن انہوں نے عدالت نہ جانے کا جو فیصلہ کیا ہوا ہے اسی پر قائم رہیں۔ یہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران ان کا دسواں سمن (بلاوا)تھا۔ اس بار جرح کے لئے ان کے گواہان تو وہاں پہنچ گئے لیکن میشا شفیع پھر غیر حاضر رہیں۔

جنسی ہراسگی کے معاملے میں موڑ کہاں آیا؟

جہاں میشا شفیع اور ان کے ساتھیوں نےگلوکار علی ظفر پر الزامات کی بھرمار کی اور سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ وہیں علی ظفر نے قانونی راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا کو ڈھال نا بنایا بلکہ خود سوشل میڈیا پر کئے گئے ٹوئٹ اور باتوں کے خلاف ثبوت پیش کیے۔

جس کے بعد الزامات لگانے والی کئی خواتین یا تو غائب ہوگئیں یا ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ جعلی نکلے یا پھر انہوں نے معذرت کرلی۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ڈویژن نے 2 سال کی تفتیش کے بعد عدالت میں جو ایف آئی آر جمع کرائی اس کی رو سے میشا شفیع اور ان کے 7 ساتھی جنہوں نے علی ظفر کے خلاف جھوٹی مہم شروع کی وہ مجرم ہیں اور انہیں عدالت  کے سامنے پیش ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انگین آلتان دوزیاتان بول اُٹھے ”لہور لہور اے‘‘

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کورٹ کے بلاوے پر میشا شفیع کینیڈا سے پاکستان نہیں آتیں لیکن کوک اسٹوڈیو اور ویلوو ساؤنڈ اسٹیشن کی دعوت پر فورا پہنچ جاتی ہیں۔ عدالت کے سامنے جاکر جرح کا سامنا کرنے کے بجائے اسٹوڈیو میں گانا ریکارڈ کرکے کینیڈا واپس چلی جاتی ہیں۔ اس سے نہ صرف عدالت عالیہ کی حکم عدولی ہو رہی ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی تعجب ہورہا جو میشا شفیع کا ساتھ دے رہے تھے۔

علی ظفر  پر الزامات، میشا شفیع کے خلاف کیسے گئے؟

3 سال قبل جب اداکار و گلوکار علی ظفر پر میشا شفیع نے جنسی ہراسگی کاالزام لگایا تھا اس وقت ساری دنیا ہی علی ظفر کے خلاف ہوگئی تھی۔ کئی صارفین نے سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر کا سہارا لے کر ایسی ایسی باتیں لکھیں جن کو دیکھ کر بھارتی فلموں کا ولن شکتی کپور بھی اچھا معلوم ہونے لگا تھا۔

 کسی نے الزام لگایا کہ علی ظفر نے ان کے ساتھ بھی ایسا کیا۔ کوئی بولا کہ ان کی دوست نے بتایا کہ ان کے ساتھ بھی علی ظفر کا رویہ نامناسب تھا۔ اور تو اور کئی لوگوں نے تو ان کو مجرم، ریپسٹ اور دنیا کا سب سے خطرناک انسان کا لقب دے دیا۔ کوک اسٹوڈیو نے تو ان کے ساتھ کام کرنا ہی بند کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ پیپسی بیٹل آف دی بینڈز جس کا وہ حصہ بننے جارہے تھے اس نے بھی علی ظفر سے مقدمے کا فیصلہ آنے تک کام کرنے سے معذرت کرلی۔

 لیکن پھر قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ علی ظفرکی فلم طیفا ان ٹربل آئی اور ہٹ ہوگئی۔ اور علی ظفران ٹربل کو اتنا ضرور پتہ چل گیا کہ ٹربل میں لانے والے کون ہیں۔آہستہ آہستہ وہ لڑکیاں بھی منظر عام سے غائب ہوگئیں جنہوں نے بغیر ثبوت الزام لگائے تھے۔ دھیرے دھیرے سوشل میڈیا کے جنگجوؤں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ اور کئی مخالفین بھی پھر علی ظفر کے حمایتی بن گئے۔

 2018 میں اسی فلم کے لئے انہیں لکس اسٹائل ایوارڈ میں بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے علی ظفر کو ’نمل نالج سٹی‘ کا سفیر نامزد کر دیا۔ اور سب سے بڑھ کربات یہ انہیں کورٹ بلاتا تو کورٹ جاتے۔ ان سے جرح ہوتی تو جواب دیتے اور انہیں کام نہیں ملتا تو وہ خود اپنے لئے کام بنالیتے تھے۔

علی ظفر کے گائے ہوئے ڈراموں کے ٹائٹل سانگ ہٹ ہونے لگے اور وہ نوجوان سنگرز کے ساتھ گانے گاتے رہے اور بناتے رہے۔ یہاں تک کے اس سال پہلے ان کا پاکستان سپرلیگ کا ترانہ آیا اور چھا گیا اور کچھ دنوں پہلے انہوں عروج فاطمہ اور عابد بروہی کے ساتھ ‘الے’  گایا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔

میشا شفیع عدالت سے غیر حاضر  کیوں؟

مقدمہ عدالت میں چلتا رہا، میشا شفیع کو عدالت طلب کرتی رہی اور وہ 2 سال سے پیشیوں سے غیر حاضر ہیں۔ کبھی ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے، کبھی کرونا بڑھنے کی وجہ سے، یہاں تک کے ان کے گواہوں نے بھی  عدالت سے درخواست کردی کہ ان سے جرح نہ کی جائے۔ جو الزامات میشا شفیع نے لگائے اگر وہ درست ہیں تو ان کی پوچھ گچھ کے لئے انہیں عدالت جانا چاہئے تاکہ معاملہ جلد از جلد ختم ہو اور فریقین کو اپنا کام کرنے کی اجازت ہو۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب میشا شفیع نے علی ظفر پر الزام لگایا تھا اس وقت وہ متعدد برینڈز کے ایمبیسڈر تھے۔ وہ پپیپسی بیٹل آف دی بینڈز کے جج بننے والے تھے جس پروگرام میں میشا شفیع بھی جج کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ انصاف کا تقاضہ تھا کہ جب تک معاملات کاکوئی حل نہیں نکلتا الزام لگانے والی اور جس پر الزام لگے دونوں کو پروگرام سے فارغ کردیا جاتا۔ جو بھی مقدمہ جیت کر واپس آتا اسے پروگرام میں باعزت طور پر واپس رکھا جاتا اور جھوٹ بولے والے کا بائیکاٹ کیا جا تا۔

لیکن اِس معاملے میں عوامی سطح پر اور سوشل میڈیا پر جنسی ہراسگی کا الزام لگتے ہی علی ظفر کو مجرم اور میشا شفیع کو معصوم قرار دیا گیا۔ سوائے ایک دو برینڈز کے علی ظفر باقیوں کے لئے اجنبی بن گئے۔ اور جب وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع کرنے کے لئے عدالت گئے تو مقدمہ طول پکڑ گیا۔ میشا شفیع کے پاس پیپسی بیٹل آف دی بینڈز تھا ہی انہیں اس کےبعد پہلے ملا کوک اسٹوڈیو اور اب ویلو ساؤنڈ اسٹیشن۔

ان کے گانے لوگوں کو پسند آئے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے اصل بحث یہ ہے کہ جب ان کا نام ایف آئی آر میں ہے تو انہیں ان پروگراموں میں شرکت کی اجازت کیسے ملی۔

 میشا شفیع الزام لگاکر نہ صرف  کینیڈا جا کر سیٹ ہوگئیں بلکہ انہیں خواتین کے حقوق کا علمبردار بھی سمجھا جانے لگا۔

یا تو سوشل میڈیا پر بدنام کرنے سےمتعلق اپنے خلاف دائر کی گئی ایف آئی آر کے پر اُنھوں نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی ہوتی تو ان کا ملک میں آنا گانا ریکارڈ کرانا اور واپس جانا کسی کوبرا نہیں لگتا۔ لیکن یہاں کوئی ضمانت نہیں ہوئی پھر انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا نا ہی سوال کیا کہ وہ عدالت کے بلانے پر نہیں آتیں اور گانا ریکارڈ کرانے آ گئی ہیں۔

کورٹ سے زیادہ اہمیت کوک کے گانے کو؟

میشا شفیع زوم کے ذریعے آن لائن جرح کو کیوں ترجیح دے رہی ہیں؟ کیا گانا گانے کے لئے انہوں نے زوم کا سہارا لیا تھا؟ جب علی ظفر عدالت کا سامنا کررہے ہیں اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع کرنے کے لئے ثبوت پیش کررہے ہیں۔ امریکا سے پاکستان عدالت کے سامنے پیش ہونے آتے ہیں تو میشا شفیع ایسا کیوں نہیں کرسکتیں؟

علی ظفر نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر انہیں پاکستان آنے میں کوئی مسئلہ ہے تو وہ ان کی مالی معاونت کے لئے بھی تیار ہیں۔ لیکن یہاں کورٹ کے لئے وقت نہیں کوک کے لئے وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کورٹ کے سامنے نہ آنا زیادہ بڑا جرم ہوگا یا کوک کے سامنے پیش ہونا۔12 دسمبر بھی آکر چلی گئی لیکن میشا شفیع پیشی سے غیر حاضر ہی رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سوشل میڈیا پر نادیہ خان کی منگنی کی افواہیں

متعلقہ تحاریر