نسلہ ٹاور متاثرین کو کوئی سیاسی جماعت انصاف نہ دلوا سکی

سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ آج جاری ہوگیا ہے، ایک ہفتے میں عمارت کو گرانے کا حکم، سیاستدان سیاست چمکانے پہنچ گئے۔

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری نے نسلہ ٹاور کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کمشنر کراچی 400 مزدوروں کو لگائیں اور ٹاور کو ایک ہفتے میں گرایا جائے۔

دوسری طرف ہیوی مشینری اور مزدوروں کی مدد سے نسلہ ٹاور کو گرانے کا کام آج چوتھے روز بھی جاری رہا۔

یہ بھی پڑھیے

ڈونلڈ ٹرمپ کی عمارت منہدم کردی گئی

نسلہ ٹاور کون گرائے گا کیسے گرائے گا؟ ایک معمہ ہے سمجھنے کا

اہم بات یہ ہے کہ آج چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کیانی واپس اسلام آباد روانہ ہوگئے ہیں اور یہاں نسلہ ٹاور کی عمارت پر ہر سیاسی جماعت کے نمائندے نے آکر میڈیا سے بات کی ہے۔

سینئر سیاستدان فاروق ستار نے کہا کہ نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم انسانی المیہ جنم دے رہا ہے، جن اداروں نے عمارت تعمیر کرنے کے لیے این او سی دیا ان کی ساکھ پر سوال اٹھتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز چیئرمین آباد محسن شیخانی پر ہونے والے تشدد کے متعلق صوبائی وزرا کو معلوم تھا۔

صوبائی وزیر اور پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ نسلہ ٹاور میں جن لوگوں نے گھر لیے ان کا کیا قصور ہے؟ شہریوں کی چھتیں چھین لی گئی ہیں۔

اب ہمارا ان تینوں سیاسی رہنماؤں اور ان کی جماعتوں سے سوال ہے کہ آپ لوگ کل تک کہاں تھے جب چیف جسٹس سپریم کورٹ کراچی میں موجود تھے؟

چیف جسٹس کی عدالت میں صرف جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمان نسلہ ٹاور گرانے کے فیصلے پر احتجاج ریکارڈ کروانے گئے جنہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔

ان کے علاوہ بلڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محسن شیخانی بھی عمارت کے باہر موجود رہے اور میڈیا کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا یہاں تک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ڈنڈے کھائے۔

سوال یہ ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی، کراچی شہر کے نام پر سیاست کرنے والی ایم کیو ایم اور ملک بھر میں نام نہاد تبدیلی کا استعارہ بننے والی پی ٹی آئی، ان تینوں جماعتوں کے کسی رہنما میں کل تک ہمت نہ ہوئی کہ عدالت جاتے اور عمارت کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے کچھ کرتے۔

آج جب کہ چیف جسٹس واپس اسلام آباد جاچکے ہیں تو تینوں جماعتوں کے رہنما بیان بازی کر رہے ہیں۔

یہ ہے ہماری ‘جمہوری’ سیاسی جماعتوں کا حال جن کے رہنما گرفتاری کے ڈر سے حق کی بات بھی نہ کہہ سکے۔

متعلقہ تحاریر