پیسہ لے کر بھاگنے کا الزام لغو ہے، اشرف غنی کا فرار کے بعد پہلا انٹرویو

سابق افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ محض چند لمحوں میں کیا کیونکہ میں افغانستان کو زیادہ تباہی سے بچانا چاہتا تھا۔

طالبان کی جانب سے اگست 2021ء میں افغان دارالحکومت کابل پر قبضے کرنے بعد افغانستان سے فرار ہونے والے سابق صدر اشرف غنی کا پہلا انٹرویو سامنے آگیا۔

بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام کے میزبان اور اشرف غنی کے پرانے دوست جنرل نک کارٹر کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق صدر نے افغانستان میں طالبان سے فرار ہونے کا لمحہ بیان کیا۔

یہ بھی پڑھیئے

اشرف غنی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ کام کابل کی تباہی کو روکنے کے لیے کیا تھا۔

طالبان نے اگست میں دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے بعد اقتدار پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

اشرف غنی نے انکشاف کیا کہ جب وہ 15 اگست کو سوکر بیدار ہوئے تو انہیں اس وقت تک کوئی اندیشہ نہیں تھاکہ وہ دن افغانستان میں ان کا آخری دن ہوگا اور جب ان کا طیارہ کابل سے روانہ ہوا تب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ جارہے ہیں۔اس وقت مجھ پر شدید تنقید کی گئی تھی اور ملک چھوڑنے کا الزام لگایا گیا گیا تھا تاہم اب میں متحدہ عرب امارات میں ہوں۔

اشرف غنی کے مطابق طالبان کے دو مختلف دھڑے دو مختلف سمتوں سے قریب آرہے تھے اور ان کے مابین بڑے پیمانے پر تصادم کا امکان موجود تھا جس سے پچاس لاکھ افراد کی تباہی کا خدشہ تھا۔

اشرف غنی نے بتایا کہ قومی سلامتی کے مشیر اور صدارتی سیکورٹی کے چیف نے مجھے دو منٹ سے زیادہ سوچنے تک کا وقت نہیں دیا اور کہا اگر ہم نہیں گئے تو مارے جائیں گے۔ اس وقت تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم کہاں جائیں گے۔ جب ہم نے ٹیک آف کیا تو یہ واضح ہو گیا کہ ہم افغانستان چھوڑ رہے ہیں لیکن یہ واقعی اچانک تھا۔

اشرف غنی نے کہا کہ میری رخصتی کو نائب صدر امر اللہ صالح سمیت بہت سے لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور ذلت آمیز قرار دیا گیا۔
انہوں نے ملک سے پیسوں سے بھرے بیگز لے کر بھاگنے کو محض الزامات قرار دیا اور اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرا طرز زندگی سب کو معلوم ہے اور میں پیسے کا کیا کروں گا۔

متعلقہ تحاریر