پاکستان اور انڈیا میں پنڈورا پیپرز کے ناموں کی تحقیقات جاری، آئی سی آئی جے

دو جنوبی ایشیائی ممالک کے حکام لیک ہونے والے پیپرز میں سامنے آنے والے آف شور اکاؤنٹ ہولڈرز کی سرگرمی سے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ( آئی سی آئی جے) نے بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی سرکاری ایجنسیوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے شہریوں سے منسلک سینکڑوں آف شور اکاؤنٹس اور پینڈورا پیپرز کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات کی جانچ کر رہے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ان عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس  ( آئی سی آئی جے) کی تحقیقات کے بعد پینڈورا پیپرز میں نامزد شہریوں کی تحقیقات کا وعدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بلیوں کی وجہ سے 3 برسوں دوران 100 گھر نذرآتش ہوئے، جنوبی کورین حکام

پیسہ لے کر بھاگنے کا الزام لغو ہے، اشرف غنی کا فرار کے بعد پہلا انٹرویو

پینڈورا پیپرز 11.9 ملین صفحات پر مشتمل خفیہ مالیاتی ریکارڈز ہے جو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ( آئی سی آئی جے) نے لیک تھا ۔ آئی سی آئی جے دنیا بھر کے 600 رپورٹرز مشتمل کنسورشیم ہے۔ پینڈورا پیپرز میں 29 ہزار لوگوں سے متعلق خفیہ معلومات شامل ہیں جن میں شیل کمپنیز ، ٹرسٹوں اور بینک اکاؤنٹس کے مالک ہیں۔

پاکستانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے معائنہ کمیشن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ 240 پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیز کا جائزہ لے رہا ہے جن میں سیاستدانوں، فوجی جرنیلوں اور بیوروکریٹس کا ٹیکس ہیونز میں موجود اداروں سے تعلق ہے۔ کمیشن نے کہا کہ وہ جنوری کے آخر تک جائزہ مکمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

مشکل مرحلے یہ ہے کہ افشا ہونے والی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے اندرونی حلقوں کے اہم ارکان بشمول وزیر خزانہ شوکت ترین، ان کے اہل خانہ اور بڑے مالی معاونین خفیہ طور پر آف شور کمپنیز اور ٹرسٹوں کے مالک ہیں جن میں کروڑوں ڈالر انویسٹمنٹ کی گئی ہے۔ آئی سی آئی جے اور اس کے پاکستانی میڈیا پارٹنر "دی نیوز” نے بتایا ہے کہ فوج کے بڑے بڑے کردار بھی اس میں شامل ہیں۔

انڈیا میں آئی سی آئی جے اور اس کے میڈیا پارٹنر "انڈین ایکسپریس” نے بتایا ہے کہ 380 ہندوستانیوں جن میں کرکٹ کے سابق سپر اسٹار سچن ٹنڈولکر اور فصلوں کے کیڑے مارنے والی دوا بنانے اداروں کے مالکان شامل ہیں۔ پینڈورا پیپرز کے مطابق ان افراد نے کروڑوں ڈالر باہر منتقل کیے، خفیہ ٹرسٹ قائم کیے اور جائیدادیں خریدیں۔

آئی سی آئی جے کی تحقیقات میں جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں انہوں نے ایسے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ قانون کی مکمل تعمیل کرتے ہیں۔

گذشتہ سال دسمبر میں انڈیا کی مالیاتی کرپشن کی تحقیقات میں معمور انٹیلی جنس یونٹ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے 33 مالک میں ہندوستانیوں شہریوں کی آف شور کمپنیز سامنے ہیں جبکہ مالی لین دین کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے 161 درخواستیں مذکورہ ممالک کو بھیجی گئی ہیں۔

انڈین حکومت نے مذکورہ "ملٹی ایجنس گروپ” پینڈورا پیپرز کے شائع ہونے کے فوری بعد تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ اس گروپ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور ٹیکس ایجنسی کے اہلکار شامل ہیں۔ ٹیکس حکام نے انڈیا اور دیگر ممالک کے درمیان بین الاقوامی معاہدوں کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ پینڈورا پیپرز میں بے نقاب ہونے والے ہندوستانیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ٹیکس حکام نے برطانوی ورجن آئی لینڈ جسے ٹیکس نادہندگان کی جنت کہا جاتا ہے ، سے ڈیٹا حاصل کیا ہے جو تفصیلات سے بھرپور ہے۔

وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاناما پیپرز میں جن انڈین شہریوں کے نام سامنے آئے تھے ، ستمبر 2021 تک کی تحقیقات کے مطابق بھارتی شہریوں نے آف شور کمپنیز میں 2.7 ارب ڈالر سے زیادہ انویسٹمنٹ کررکھی ہے۔

واضح رہے کہ پاناما پیپرز کی اشاعت کو 5 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے ، گذشتہ ماہ بھارتی حکام نے بالی ووڈ اسٹار ایشوریہ رائے بچن سے ان کی BVI کمپنیز کے حوالے سے پوچھ گچھ کی تھی۔ ایشوریہ رائے کی کمپنی ان 8 لاکھ کمپنیز میں سے ایک ہے جو آئی سی آئی جے کی تحقیقات پیپرز میں سامنے آئی تھی۔

متعلقہ تحاریر