کیا شہباز اور مولانا ، چوہدری برادران کو منانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی ق لیگ اور ایم کیو ایم سے بندھی ہوئی امیدیں ثمرآور ثابت ہوں گیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس حکومت کے اتحادیوں کو دینے کےلیے کیا ہے۔

بات کرتے ہیں سیاسی منظر نامے کی ۔ بڑے ڈیل میکر آصف علی زرداری کی ناکامی کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومتی اتحاد کے سب سے بڑی الائی چوہدری برادران سے ملاقات کی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کل چوہدری برادران سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کریں گے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی چوہدری برادران سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد ، کب آئے گی کیسے منظور ہو گی کچھ پتا نہیں؟

ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا، بلاول بھٹو

ذرائع کے کہنا ہے کہ مونالا فضل الرحمان نے چوہدری برادران سے تحریک عدم اعتماد پر مدد کی درخواست کردی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کے سربراہ نے چوہدری برادران کے سامنے یک نکاتی ایجنڈا رکھا۔

ذرائع کا کہنا ہے ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمان نے چوہدری برادران سے دو دن کا وقت مانگ لیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے ملاقات کے دوران چوہدری برادران نے کہا ہے کہ ہم سے مدد مانگنے سے پہلے پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی جماعتیں پہلے آپس میں مشاورت مکمل کرلیں۔

اس پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی قیادت اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کے بعد آپ کو دو دن بعد فون کری گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کل شہباز شریف آپ سے ملاقات کریں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری سب سے بڑے ڈیل میکر مانے جاتے ہیں مگر وہ چوہدری برادران سے ہاں کروانے میں ناکام ہو گئے ، تو کیا ایسی صورتحال میں مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف چوہدری برادران کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ حالات بھی ان کے حق میں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ جب زرداری صاحب جیسے زیرک سیاستدان فیل ہو گئے تو شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کیسے کامیاب ہوں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے فیصلوں کو سنجیدہ لینے کے لیے کیوں تیار نہیں ہے۔ اس کی شائد وجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے مگر ابھی ہوم ورک کرنا باقی ہے۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی ق لیگ اور ایم کیو ایم سے بندھی ہوئی امیدیں ثمرآور ثابت ہوں گیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس حکومت کے اتحادیوں کو دینے کےلیے کیا ہے۔ جو کہ ایک ویلڈ سوال ہے جس کا جواب تو پی ڈی ایم کے پاس شائد نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر