میاں چنوں واقعے میں اہم پیش رفت ، 15 مرکزی ملزمان سمیت 85 افراد گرفتار

عمران خان کا کہنا ہے ہم قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف پوری شدت سے نمٹا جائے گا۔

صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعے کے بعد خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک اور شخص کو تشدد کرکے ہلاک کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے واقعے کا نوٹس لینے کے بعد پولیس کے اعلیٰ حکام نے کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث 15 مرکزی ملزمان سمیت 85 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔

میاں چنوں واقعے پر پولیس نے اپنی مدعیت میں 33 نامزد اور 300 نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

خانیوال سانحہ میں انتہائی اہم پیشرفت:

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر میاں چنوں واقعے پر اپنی کارکردگی رپورٹ جاری کرتے ہوئے پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ "پولیس نے15 مرکزی ملزمان کی شناخت کرکےانہیں گرفتارکرلیا۔”

ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق "گرفتار مرکزی ملزمان میں محمد یعقوب،کاشف،محمدریاض،ثقلین،محمد شان،آصف،ندیم،قیصر نذیر،عبد الغنی،محمد اسلم،محمد عامر،اعجاز، محبوب الرحمن،محمد بلال اور علی شیر  شامل ہیں۔”

یہ بھی پڑھیے

نوابشاہ میں زمین کے تنازع پر فائرنگ، ایس ایچ او سمیت 4 افراد جاں بحق

ڈاکٹر نوشین اور ڈاکٹر نمرتا کماری  کے کیس میں چونکا دینے والا انکشاف

ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق "گرفتار ملزمان کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری اسلم پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ گرفتار ملزمان کے خلاف دہشت گردی اور سنگین جرائم کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے مزید ملزمان کی گرفتاری اور شناخت کا عمل جاری ہے۔”

اپنے ٹوئٹر پیغام میں پنجاب پولیس کا مزید کہنا ہے کہ "پولیس نے ابھی تک کل 85 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جن میں مرکزی ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیموں کے چھاپے جاری ہیں۔ وزیراعلی پنجاب اور آئی جی پنجاب سارے آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔”

قبل ازیں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب راؤ سردار علی خان نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق 33 نامزد ملزمان اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جب کہ ملزمان کے خلاف گھناؤنے جرائم اور دہشت گردی سے متعلق دفعات بھی شامل کی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ واقعے کی فوٹیج کے فرانزک تجزیہ سے مجرموں کی شناخت اور ان کے کردار کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مارے جانے والے شخص کو ہجوم اس وقت گھسیٹ کر تھانے سے باہر لایا جہاں اسے رکھا گیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق ہجوم نے اس شخص کو مارا پیٹا اور بلاآخر ہلاک کردیا جبکہ اس دوران پولیس نے حملہ آوروں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ مقتول شخص ایک بھکاری تھا۔

مذہبی انتہا پسندوں نے مقتول کو سڑک پر گھسیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) اور ایس ایچ او پورے معاملے کی تحقیقات کے لیے موقع پر پہنچ گئے۔

جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کیپٹن (ر) ظفر اقبال اعوان نے میاں چنوں پولیس کو ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

میاں چنوں واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ "ہم قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف پوری شدت سے نمٹا جائے گا۔”

وزیراعظم عمران خان نے "آئی جی پنجاب سے میاں چنوں واقعے میں ملوث ملزمان اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں جنہوں نے اپنے فرض میں کوتاہی برتی ان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کی ہے۔”

میاں چنوں واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ” میں نے بارہا اپنے نظام تعلیم میں تباہ کن شدت پسندی کی طرف توجہ دلائی ہے، سیالکوٹ اور میاں چنوں جیسے واقعات عشروں سے نافذ تعلیمی نظام کا حاصل ہیں یہ مسئلہ قانون کے نفاذ کا بھی ہے اور سماج کی تنزلی کا بھی، سکول، تھانہ اور منبر اگر ان تین کی اصلاح نہ ہوئی تو بڑی تباہی کیلئے تیار رہیں۔”

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے میاں چنوں واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "میاں چنوں میں ایک شخص کا ہجوم کے ہاتھوں پُرتشدد قتل قابل مذمت ہے اس واقعے کے ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔ پنجاب حکومت کو فوری طور پر پولیس اور مجرموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ قوانین موجود ہیں – پولیس کو قانون کی حفاظت کرنی چاہیے تھی ، اور ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔”

متعلقہ تحاریر