سعودی عرب کی 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آفر سرخ فیتے کی نذر

معاشی ماہرین کا کہنا ہے اگر آئل ریفائنری وقت پر لگ جاتی تو بلوچستان میں بے روزگاری میں کمی آتی اور دوسرا پاکستان کو یورو 5 یا یورو 6 کا پٹرول مقامی سطح پر مل جاتا۔

سعودی عرب 8 ارب ڈالر کی ریفائنری کی پیشکش لیے پھرتا رہا اور روایتی سرخ فیتے اور سستی نے  چار سال میں ریفائنری نہ لگنے دی۔ سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی بھی نہیں سنی گئی۔

ایک ایک ڈالر کو ترستی پاکستان کی معیشت کے لیے سعودی عرب فروری 2019 سے 8 ارب ڈالر کی ریفائنری لگانے کی آفر لیے پھرتا رہا لیکن وزراء کی روایتی سستی اور بیوروکریسی کے روایتی سرخ  فیتے کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ  ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیے

پی ایس او کے 87 ارب روپے اداروں میں پھنس گئے، تیل خریدنے کے لالے پڑ گئے

وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ قطر کامیاب، 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع

پاکستان میں سعودی شہزادے اور دیرینہ دوست محمد بن سلمان کی بھی نہیں سنی گئی۔

وزارت پٹرولیم کے ایڈیشنل سیکریٹری حسن یوسفزئی نے پبلک اکاؤنٹس میں سعودی عرب کی پیشکش پر 4 سال میں کوئی پیش رفت ہونے کا انکشاف کیا تو کمیٹی  ہکا بکا رہ گئی۔

ایڈیشنل سیکریٹری پٹرولیم حسن یوسفزئی نے بتایا کہ  اس ریفائنری کی پیشکش کے باوجود پاکستان اپنی آئل ریفائنری پالیسی مرتب نہیں کرسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے  فروری 2019 کے دورہ پاکستان کے موقع پر آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے حب اور گوادر میں آئل ریفائنری قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ ریفائنری پالیسی کا ڈرافٹ گزشتہ ماہ تیار کیا گیا ہے لیکن اب بھی مزید دو ماہ درکار ہیں، ریفائنری پالیسی کی تیاری میں ایک سال سے زائد کا وقت لگا۔

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آئل ریفائنری کی تاخیر پالیسی کی وجہ سے ہوئی یا کسی اور وجہ سے اس کا حتمی نقصان پاکستان کی معیشت اور ماحول کو ہوا۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اگر یہ آئل ریفائنری حب اور گودار میں لگ جاتی توبلوچستان میں بےروزگاری میں کمی آتی اور پاکستان کو یورو 5 یا یورو 6 کا پٹرول مقامی طور پر دستیاب ہوتا اور پاکستان ان دونوں مقامات سے پٹرولیم پروڈکٹس برآمد کرنے کی  صلاحیت بھی حاصل کرلیتا ، جو پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھاتا اور پاکستان کو زرمبادلہ کما دے دیتا۔

متعلقہ تحاریر