عصمت دری کے مقدمات میں عدالت سے باہر تصفیہ غیر قانونی قرار

ملزم فرید احمد کو مارچ 2017 میں حیدری تھانے کی حدود میں 24سالہ اسکول ٹیچر سے زیادتی کے مقدمے میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، متاثرہ خاتون کے والد نے عدالت میں راضی نامہ جمع کرایا تھا،

کراچی کی  سیشن عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ عصمت دری کے مقدمے میں فریقین کے درمیان عدالت سے باہر تصفیے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ ناقابل معافی جرم  ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (وسطی) ذبیحہ خٹک نے یہ  فیصلہ عدالت نے عصمت دری کا نشانہ بننے والی 24 سالہ لڑکی کے والد اور ملزم کے درمیان عدالت سے باہر ہونے والے تصفیے کومسترد کردتے ہوئے دیا۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی میں ڈی ایس پی ٹریفک کو تھپڑ مارنے والی لیڈی ڈاکٹر نیول افسر کی بہن نکلی

کراچی سٹی کورٹ احاطے میں فائرنگ، پسند کی شادی کرنے والی بیٹی جاں بحق

 قبل ازیں جج نے دونوں جانب سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔جج نے ملزم فرید احمد کو مارچ 2017 میں حیدری مارکیٹ تھانے کی حدود میں ایک نوجوان اسکول ٹیچر کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیتے ہوئے 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

جج نے کہا کہ آج کل معاشرے میں مندرجہ بالا قسم کے جرائم عروج پر ہیں جن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے کیونکہ یہ معاشرے میں خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تباہی پھیلاتے ہیں۔

 عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف متاثرہ خاتون کے اغوا کا جرم ثابت نہیں ہوسکا، کیونکہ اس حوالے سے استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد مشکوک تھے۔

سرکاری وکیل حنا ناز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم 21 مارچ 2017 کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے سے متاثرہ لڑکی کو اٹھا کر لے گیا اور اسے کوئی نشہ آور چیز پلائی اور پھر خیر محمد گوٹھ کے کسی خالی مکان میں لے گیا۔ ملزم نے اسے تقریباً دو ہفتوں تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا  جس کے بعد پولیس نے خاتون کو بازیاب کروالیا۔

جج نے متاثرہ  لڑکی کے والد کی طرف سے جمع کرائے گئے ذاتی حلف نامے کی منظوری کی    درخواست مسترد کر دی، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر ملزم کو بری کر دیا جاتا ہے تو اسے اور اس کی بیٹی   کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

جج نے قرار دیا  کہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ فیصلے کے مرحلے پر وکیل دفاع نے مدعی مقدمہ کو اس کے حلف نامہ کے ساتھ پیش کیا جس میں اس نے کہا کہ اگر ملزم کو بری کر دیا جاتا ہے تو اسے اور اس کی بیٹی (متاثرہ) کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ شکایت کنندہ نے عدالت کے سامنے بیان حلفی کے مندرجات کی تائید کی، تاہم متاثرہ لڑکی  اس حلف نامے کی توثیق کے لیے عدالت میں پیش  نہیں ہوئی۔  تاہم  جرم  ناقابل  معافی  ہے لہذا قانون کی نظر میں اس حلف نامے  کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔عدالت نے راضی نامے کی درخواست کو  مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔

جج نے یہ بھی قرار دیا کیا کہ متاثرہ لڑکی کے میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ میں عباسی شہید اسپتال کی ویمن میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر روحینہ  نے ذکر کیا تھا کہ ’’لڑکی کے بیان کے مطابق اس نے اپنی مرضی سے اپنا گھر چھوڑا اور اس شخص کے ساتھ مل گئی۔ "

ڈاکٹر روہینہ نے عدالت کے سامنے ایم ایل سرٹیفکیٹ میں  اپنا تبصرہ لکھنے کا اعتراف بھی کیا۔جج نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”لیکن خدا بہتر جانتا ہے کہ اس نے اپنے ایم ایل سرٹیفکیٹ میں’تشدد کے نشان‘کے کالم میں اسی جملے کا ذکر کیوں کیا“۔تاہم عدالت نے خاتون میڈیکولیگل افسر کے خلاف کوئی کارروائی کا حکم نہیں دیا۔

متعلقہ تحاریر