چیف جسٹس ، جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر سماعت کریں گے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کل اپنے چیمبر میں 12 درخواستوں کا جائزہ لیں گے ، ان درخواستوں میں حکومت کی جانب سے کیوریٹیو ریویو پٹیشن کو واپس لینے کی درخواست بھی شامل ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال 10 اپریل کو وفاقی حکومت کی بدنام زمانہ "کیوریٹو ریویو پٹیشن” کو واپس لینے کی درخواست پر سماعت کریں گے۔ ریفرنس پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں متعلقہ حکام کو کیوریٹو نظرثانی درخواست کی پیروی نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو سپریم کورٹ سے ریفرنس واپس لینے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے 

عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا، بلال اظہر کیانی

دفاع پاکستان کونسل کی پریس کانفرنس یا تحریک انصاف کے خلاف اعلان جنگ؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کل اپنے چیمبر میں 12 درخواستوں کا جائزہ لیں گے ، ان درخواستوں میں حکومت کی جانب سے کیوریٹیو ریویو پٹیشن کو واپس لینے کی درخواست بھی شامل ہے۔

23 جون 2022 کو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی اپنے بیان میں کیوریٹیو ریویو پٹیشن واپس لینا کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اس کے 26 اپریل 2021 کے اکثریتی فیصلے کو "صاف اور صریح طور پر غیر منصفانہ، مفاد عامہ اور عوامی بھلائی کے خلاف ہونے کی وجہ سے کھلا نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔”

26 اپریل 2021 کو عدالت عظمیٰ نے چھ سے چار کی اکثریت سے 19 جون 2022 کے اپنے اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

26اپریل 2021 کو سپریم کورٹ نے ٹیکس حکام کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ .

کیوریٹو اپیل صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری قانون، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر وغیرہ کے ذریعے دائر کی گئی تھی۔

کیوریٹو ریویو میں دلیل دی گئی تھی کہ 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے عام طور پر بند کردیئے ہیں اور ساتھ ہی ریکارڈ پر آنے والے الزامات اور معلومات کے حوالے سے جسٹس عیسیٰ کے احتساب کے دروازے بند کر دیے تھے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ریویو پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کر دیا تھا، بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ڈھال فراہم کی گئی تھی۔

ریویو پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اکثریتی فیصلہ اس بات پر زور دینے میں بھی ناکام رہا کہ حکام، ججوں، قاضیوں اور سرکاری ملازمین کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالیات اور اثاثوں کی وضاحت کریں، اس کی ابتداء ہمارے مذہب اور شاندار ورثے کی مرہون منت ہے۔

اپیل میں زور دیا گیا تھا کہ سرکاری ملازمین کے قریبی رشتہ داروں، اہلکاروں، ججوں، قاضیوں وغیرہ جیسے ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کے مالی معاملات کی بھی وضاحت ضروری ہے۔

مزید برآں، اکثریتی فیصلے نے آرٹیکل 209 اور 211 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار کو غصب کیا تھا اور اس وجہ سے یہ واضح طور پر غیرآئینی ہے اور اس پر نظرثانی کی جا سکتی ہے کیونکہ آئین کے تحت صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کلین چٹ دے سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر