کیا امریکا نے بیجنگ کی ون چائینہ پالیسی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے؟

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے امریکا چین کے ساتھ سردجنگ والی پالیسی برقرار نہیں رکھنا چاہتا ، امریکہ چین کو عالمی معیشت سے الگ کرنے کی کوشش کا حصہ نہیں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کئی مہینوں بعد امریکا یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ بیجنگ نے اپنی پالیسی سے "بین الاقوامی نظام کو سب سے سخت اور طویل مدتی چیلنج” دیا ہے۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے چین کے بارے میں اب تک کا سب سے جامع بیان تصور کیا جارہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انٹونی بلنکن نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کیا ، ان کا کہنا تھا "چین واحد ملک ہے جس کا ارادہ بین الاقوامی نظام کو از سر نو تشکیل دینے کا ہے۔ جس کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی ہوئی اقتصادی، سفارتی، فوجی اور تکنیکی طاقت اس کے پاس ہے۔”

یہ بھی پڑھیے

فلسطینی طالبہ کا امریکی وزیرخارجہ سے مصافحے سے انکار

بھارتی عدالت نے جھوٹے کیس میں حریت رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنادی

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا امریکہ چین کو عالمی معیشت سے الگ کرنے کی کوشش کا حصہ نہیں ہے ، لیکن چاہتا ہے کہ بیجنگ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے۔

45 منٹ لمبی تقریر میں انٹونی بلنکن نے چین کو ایک عظیم طاقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ "بیجنگ کا وژن ہمیں عالمی اقدار سے دور کر دے گا کیونکہ اس نے گزشتہ 75 سالوں میں بہت زیادہ معاشی ترقی کو برقرار رکھا ہے۔”

انہوں نے کہا صدر بائیڈن نے ایشیا میں نئے انداز سے ترویج کرنے کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مل کر ایک فریم ورک تیار کیا ہے جس کا مقصد ہم خیال قوموں کو متحد کرنا ہے ، کیونکہ چین کا مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں بہت بڑا غلبہ ہے۔”

انہوں نے کہا کہ بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو مزید حقیقت پسندی کے ساتھ طے کرنے کی ضرورت کے بارے میں ہم آہنگی بڑھ رہی ہے۔

انٹونی بلنکن کا کہنا تھا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں چین امریکا تعلقات بہت زیادہ سرد مہری کے نظر ہو گئے تھے تاہم بائیڈن انتظامیہ اس سرد مہری کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے میں دیکھا کہ افریقہ اور لاطینی امریکا میں چائینہ اربوں کی سرمایہ کاری شروع کررکھی ہے ، اب امریکا چین اور دیگر ممالک کے درمیان فریق نہیں بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نئی سردجنگ کی طرف نہیں جانا چاہتے اس کے برعکس ہم دونوں اس سے بچنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انٹونی بلنکن کا کہنا تھا "ہم چین کو ایک بڑی طاقت کے طور پر اس کو اس کے کردار سے روکنے کی کوشش نہیں کریں گے ، اور نہ ہی چین ایسا کرے گا۔ نہ ہم ان کی معیشت کو بڑھانے سے اور نہ اپنے لوگوں کے مفادات کو آگے بڑھانے سے روکنا چاہتے ہیں۔”

انہوں نے ہم چائینہ کے ساتھ نئی سفارتی محاذ پر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ آزمائش کا دور ختم ہوسکے ، صدر جو بائیڈن نے اس کے مقصد کے لیے تمام خطوں میں پالیسی کو مربوط کرنے کے لیے محکمہ خارجہ کے اندر "چائنا ہاؤس” کے قیام کا اعلان کیا۔

یہ تقریر اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکی جو بائیڈن نے ٹوکیو کی ایک نیوز کانفرنس میں اس بات کا عہد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ بیجنگ کی جانب سے تائیوان پر فوجی حملے کی صورت میں تائیوان کا فوجی طور پر دفاع کرے گا، کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ کسی کی خودمختار جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔”

تبصرہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی تقریر اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ امریکا ون چائینہ پالیسی کی حمایت کرتا ہے ، اور اب تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "یہ امریکہ کی فارن پالیسی کا بہت بڑا یوٹرن ہے ، امریکا اور چین کا تنازعہ یہی تھا کہ امریکا تائیوان کی سپورٹ کرتا تھا ، ہانگ کا جب چائینہ سے الحاق ہوا تھا تب بھی امریکا نے اس کی مخالفت کی تھی۔”

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ انٹونی بلنکن کی تقریر سے لگتا ہے کہ امریکا چائینہ کی معاشی پالیسی سے متاثرہ ہے اور جس طرح چین نے اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم ملک بنایا ہے اس کے سامنے امریکا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

متعلقہ تحاریر