مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علمائےکرام کے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات
حکومتی اور فوجی نمائندوں کے بعد عالم دین مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں8 رکنی وفد کالعدم ٹی ٹی پی کو جنگ بندی پر راضی کرنے میں مصروف ہیں
حکومتی اور فوجی نمائندوں کے بعد ملک کے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں 8 رکنی علمائے کرام کا وفد افغانستان پہنچ گیا جہاں طالبان حکومت کی ثالثی میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) پاکستان کو جنگ بندی میں توسیع کے لیے راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان نے حکومتی عہدیداروں اور فوجی نمائندوں کے بعد علمائے کرام کو کالعدم تحریک طالبان سےمذاکرات کیلئےافغانستان بھیج دیا۔ وفد میں مفتی تقی عثمانی، سربراہ وفاق المدارس العربیہ قاری حنیف جالندھری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود سمیت 8 علما کرام موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کالعدم ٹی ٹی پی کا فاٹا انضمام کے مسئلے پر پیچھے ہٹنے سے انکار
کابل پہنچنے پر طالبان حکام اور پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے علمائے کرام کے وفد کا پر تپاک استقبال کیا۔ ذرائع کے مطابق دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود سمیت دیگر کمانڈرز بھی کابل میں موجود ہیں ۔
ذرائع نے کہا کہ علمائے کرام کے وفد میں شامل حقانی نیٹ ورک سے مضبوط روابط رکھنے والے خیبر پختون خوا کے علما بھی شامل ہیں جو کہ پاکستان اور دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکراتی عمل میں سہولت کاری فراہم کررہے ہیں۔
پاکستانی علمائے کرام کا وفد جنگ بندی کو مزید موثر بنانے کے لیے افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی مدد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی علماء کابل میں اپنے قیام کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی رہنماؤں سے ملاقات کرکے انہیں جنگ بندی پر راضی کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ انہیں موقف میں نرمی اختیار کرنے کی جانب بھی مائل کرنے پر دلائل دیں گے ۔
ذرائع کے مطابق علمائے کرام کا وفد کالعدم تحریک طالبان کو قبائلی اضلاع کے انضمام کے حوالے سے ان کے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ بھی کرے گا تاہم ٹی ٹی پی کے سربراہ اپنے مطالبے سے پیچھے ہونے پر تیار نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
قبائلی اضلاع کے انضمام پر ٹی ٹی پی کے ساتھ ڈیڈلاک ہے، قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کالعدم تنظیم کے سربراہ نور ولی محسود نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ امارات اسلامی افغانستان کی ثالثی میں پاکستان سے مذاکرات جاری ہیں تاہم اس کے باوجود ہمارے خلاف کارروائیا ں جاری ہیں۔ ان کا یہ غیر سنجیدہ رویہ مذاکرات کے عمل کو متاثر کرسکتا ہے ۔
کالعدم جماعت کے سربراہ نے کہا کہ ہمارے مطالبات تو بہت واضح ہیں، خاص کر قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کے خیبرپختونخوا سے انضمام کو ختم کرنا ہمارا بنیادی مطالبہ ہے جس سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنی آزاد اور خود مختارحیثیت ختم کرنے کا اختیار کسی قیمت پر کسی کو نہیں دے سکتے ۔مفتی ولی نے کہا کہ پاکستان حکومت ہماری کارروائیوں سے دباؤ میں آکر مذاکرات پر مجبور ہوئی ہے ۔
یاد رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے حال ہی میں فاٹا کے انضمام ختم کرنے کو خارج از امکان قرار دیا تھا، فاٹا کو 2018 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات میں پاکستانی حکومت کی نمائندگی کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کررہے تھے جبکہ ٹی ٹی پی کا وفد ان کی سربراہی میں مذاکرات میں شامل تھا۔