بیرسٹر اعتزاز احسن نے فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
اعتزاز احسن نے اپنی درخواست پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور معروف وکیل لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ کے توسط سے دائر کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور معروف وکیل بیرسٹر اعتزاز نے سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنی درخواست پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور معروف وکیل لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ کے توسط سے دائر کی ہے۔
سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت پاکستانی ایکٹ کے مطابق فوجیوں پر لاگو ہوسکتی ہے۔ مگر کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ لیاقت حسین کے فیصلے بعد 15 سال تک کوئی فوجی عدالت نہیں لگی۔ لیکن 16 دسمبر 2016 میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا ، وہ ایک گھناؤنی سازش تھی جس میں بڑی سفاکی سے 150 سے زائد بچوں کو قتل کیا گیا۔ پورے ملک میں ایک آواز اٹھی اور کہا گیا کہ فوجی عدالتیں لگاؤ اور ان کا ٹرائل کرو۔ آئین کے مطابق فوجی عدالتیں لگ نہیں سکتی تھیں ، اس سانحے کے پیش نظر فوجی عدالتیں لگانے کے لیے آئین میں 21ویں ترمیم کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
یونان کشتی حادثے میں 12 پاکستانی زندہ بچ گئے مگر جاں بحق افراد کی تعداد کی تصدیق نہ ہوسکی
اسلام آباد حکومت کی اصل ثالث افواج پاکستان ہے، فارن افیئرز میگزین
اعتزاز احسن نے بتایا کہ آئین نے جگہ بنائی اور فوجی عدالتوں کو اسپیس دے دیا، کہ وہ فوجی عدالتیں قائم کرلیں۔ اس آئینی ترمیم کی مدت دو سال رکھی گئی ، یعنی وہ ترمیم خودبخود ختم ہو جائے گی۔ دو سال بعد محسوس کیا گیا کہ ابھی بہت سارے مقدمات پینڈنگ ہیں ، اس لیے اس قانون کو مزید دو سال کی چھوٹ دے دی گئی۔ پھر جنوری 2019 میں فوجی عدالتوں کا دورانیہ ختم ہوگیا۔ اب 9 مئی کے روز بہت افسوس ناک کارروائیاں ہوئیں ، فوجی املاک کو جلایا گیا ، توڑ پھوڑ کی گئی ۔ میں ان کی وکالت نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے ، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلین کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر انہوں نے بہت گھناؤنا جرم بھی کیا تو انسداد دہشتگردی کی عدالتیں ہیں ، آپ ان سویلینز کو وہاں ٹرائی کرسکتے ہیں۔
اعتزاز احسن کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی دو تین خصوصیات ہوتی ہیں۔ مگر جب سیشن کورٹ یا کوئی بھی دوسری کورٹ کسی کو سزا دیتی ہے تو انہیں وہ تمام دلائل لکھنے پڑتے ہیں جو کیس کی سماعت کے دوران دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ فوجی عدالتوں گلٹی یا ناٹ گلٹی ہوتا ہے ، کوئی دلائل نہیں ہوتے۔ جب دلائل نہیں دیں گے تو انصاف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔