سپریم کورٹ ایک شخص کی مرضی پر نہیں چل سکتی، جسٹس عیسیٰ

سینئر جج کا نوٹ جاری ہونے کے چند لمحوں بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے  ایک نوٹ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ ایک شخص کی خواہش پر نہیں چل سکتی۔ 30 صفحات پر مشتمل اس نوٹ کو اپ لوڈ کرنے کے کچھ دیر بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

اردو میں لکھے گئے نوٹ میں قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ "یہ وضاحت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا سیکشن 2 (بینچز کی تشکیل) صرف چیف جسٹس اور دو سینئر ججوں پر لاگو ہوتا ہے۔”

30 صفحات پر مشتمل اپنے نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نو رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ "یہ نوٹ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے بنائے گئے نو رکنی بنچ پر مرکوز ہے۔ جو میرے اور سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کی رضامندی کے بغیر تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم نے عوام سے آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری کے لیے دعاؤں کی اپیل کردی

شہباز شریف کی چینی ہم منصب سے ملاقات؛ لی کی چیانگ کی پاکستانی مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 21 جون کو 9 مئی کے فسادیوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے نو رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔

تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گذشتہ کئی مہینوں سے اہم مقدمات کی سماعت سے باہر رکھا گیا تھا ، جس کی وجہ سے انہوں نے 22 جون کو بننے والے بینچ سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا۔

نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ "جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی اسی وجہ سے بنچ کا حصہ بننے سے خود کو الگ کیا۔”

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے لکھا کہ میں عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف مقدمے سے خود کو الگ نہیں کر رہا ہوں۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بعد سے میں عدالت میں نہیں بیٹھا ہوں۔ اگر میں مقدمات کی سماعت کرتا ہوں تو میں اپنے آئینی اور قانونی موقف کی خلاف ورزی کروں گا۔

ان کا کہنا ہے کہ آج تک چیف جسٹس آف پاکستان نے میرے موقف کی تردید نہیں کی، بلکہ عزت مآب نے جواب دینے کی زحمت تک نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس نے بلاوجہ اپنے ساتھیوں کو الجھن میں مبتلا کررکھا ہے۔

سینئر ترین جج کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں سمت درست رکھوں: قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ "میری عاجزانہ رائے میں سپریم کورٹ کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، سپریم کورٹ جیسا آئینی ادارہ کسی فرد کی مرضی سے نہیں چل سکتا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا اطلاق چیف جسٹس دو سینئر ترین ججز پر ہوتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ جسٹس طارق مسعود نے بھی شروع میں بینچ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ میں جسٹس طارق مسعود کے عہدے کا احترام کرتا ہوں اور وہ بھی میرے عہدے کا احترام کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز ایک گلدستے کی  طرح ہوتے ہیں انہیں  اپنی خوشبو سے ہوا کو معطر رکھنا چاہیے۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ مخصوص فیصلے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے اچانک مجھ سے 16 مئی کو تحریری طور پر پوچھا۔ میں کب تک چیمبر کا کام کرنا چاہتا ہوں؟

چیف جسٹس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا: قاضی فائز عیسیٰ

انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ "17 مئی کو چیف جسٹس کو 5 صفحات پر مشتمل جواب بھیجا۔ چیف جسٹس کو جواب پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا حوالہ بھی دیا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ کیسز کی سماعت کے لیے بننے والے بینچز کی تشکیل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز کرسکتے ہیں۔ تاہم پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے قبل ہی معطل کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے تحریری جواب میں نشاندہی کی کہ قانون کے خلاف درخواستیں قبول ہوں گی یا مسترد، اگر درخواستیں مسترد ہو جائیں تو درمیانی مدت میں عدالت چلانا اس قانون کی خلاف ورزی نہیں؟ عزت مآب چیف جسٹس نے مجھے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے، اس ایکٹ کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ یا حکم امتناعی واپس لینے سے ہی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

عدالتی کارروائی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے: نامزد چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ چیف جسٹس سے پوچھے گئے سوال کہ میں کب تک چیمبر کا کام کرنا چاہتا ہوں، ان درخواستوں کے حوالے سے چیف جسٹس ہی بہتر جواب دے سکیں گے۔ چیف جسٹس خود جواب دیں کہ فیصلہ کب آئے گا، درخواستوں پر کیسے فیصلہ کرنا ہے یہ بھی چیف جسٹس کی صوابدید پر منحصر ہے، پوری قوم کی طرح میں بھی جلد فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں، عدالتی کارروائی عدالت کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

عمر بندیال نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سینئر ججز سے مشاورت کی روایت چھوڑ دی، قاضی فائز

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ سپریم کورٹ میں یہ پریکٹس تھی کہ بینچ کی تشکیل اور دیگر معاملات میں سینئر ججز سے مشاورت کی جاتی تھی، سابق چیف جسٹس گلزار احمد باقاعدگی سے جسٹس عمر عطا بندیال سے مشورہ کرتے تھے، ہر آئینی کیس میں جسٹس بندیال سے مشاورت کی جاتی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جب سے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا ہے، انہوں نے سینئر ججز سے مشاورت کی روایت چھوڑ دی، نہ میرے ساتھ اور نہ ہی سینئر جج سردار طارق مسعود سے مشاورت کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے تمام ضروری معاملات اپنی مرضی سے یا منتخب اہلکاروں کے ذریعے نمٹائے، ججز کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کبھی فل کورٹ میٹنگ نہیں بلائی گئی، ججز کی فل کورٹ میٹنگ نہیں بلائی گئی۔ لیکن درخواست گزاروں اور اپنے وکلاء کو ترجیح دی۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پہلے بھی ایک نوٹ ایک کیس میں اپ لوڈ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چھ رکنی بینچ کو غیر قانونی قرار دینے کا نوٹ بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے حافظ قرآن کے اضافی نمبروں سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں رولز 184/3 بنانے تک زیر التواء مقدمات کی سماعت ملتوی کرنے کا حکم دیا تھا، عدالتی حکم کو رجسٹرار کے سرکلر اور بعد میں 6 رکنی بینچ نے واپس کردیا تھا۔

متعلقہ تحاریر