سیاسی رنگ میں رنگی صحافت
صحافیوں کے دو گروہ بن گئے ہیں، ایک حکومت حامی اور دوسرا مخالف۔
آج کل پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما تو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہی رہتے ہیں لیکن اب صحافت اور صحافیوں پر بھی سیاسی رنگ چڑھتا نظر آ رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور فوج ریاست کے 4 ستون ہیں۔ یہ چاروں اگر اپنا اپنا کام غیرجانبداری سے کریں تو ملک ترقی کرتا ہے۔ لیکن اگر ایک بھی ستون کسی طرف جھکا (یعنی غیرجانبدار ہوا) تو حالات خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
چند سال پہلے تک اگر کوئی صحافی کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت میں بولتا تھا تو اس کی ساکھ متاثر ہوتی تھی۔ لیکن اب پاکستان میں صحافی بھی جانبدار ہونے لگے ہیں۔ صحافیوں کے دو کمپس بن گئے ہیں۔ ایک حکومت نواز اور دوسرا مخالف۔
گزشتہ روز اِس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اِس جلسے میں شریک ہونے والوں کی تعداد پر حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی نظریں تھی۔
پی ڈی ایم کے لیے اس جلسے میں متاثر کن تعداد جمع کرنا ایک چیلنج تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اتوار کے جلسے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد پر صحافیوں اور صحافتی اداروں کے دونوں کیمپس کھل کر سامنے آ گئے۔
نجی نیوز چینل اے آر وائی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کی گئی کہ ‘عوام نے اپوزیشن کو مسترد کردیا’۔ یہ ٹوئٹ دیکھ کر واضح ہے کہ ادارے کاجھکاؤ حکومت کی جانب ہے۔
‘عوام نے اپوزیشن کو مسترد کردیا’#ARYNewsUrdu https://t.co/6GoL1R1tDC
— ARY News Urdu (@arynewsud) December 13, 2020
ادھر پاکستان کے نامور صحافی اور جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر نے بھی ٹوئٹ کیا جس میں اُنہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں عوام کا جم غفیر نظر آ رہا ہے اور اُس کے بعد اُنہوں نے شیخ رشید کے بیان کو دہرایا گیا جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ جلسے میں صرف چند ہزار لوگ ہیں۔ اس ٹوئٹ کا بظاہر مقصد حکومت پر چوٹ کرنا لگ رہا ہے۔
لاہور کے جلسے میں صرف چار پانچ ہزار لوگ ہیں، شیخ رشید pic.twitter.com/x1x9xIAi1k
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) December 13, 2020
جبکہ آج نیوز سے وابسطہ سینئر خاتون صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی بظاہر عمران خان کی مخالفت میں ٹوئٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کے قائدین اسٹیج پر ہیں لیکن وزیراعظم کو کوئی ٹینشن نہیں۔ آج اُنہوں نے ٹائیگر اور شیرو کو بھر پور وقت دیا ہے۔ اِس ٹوئٹ کے ذریعے دیا گیا پیغام واضح ہے۔ وہ بظاہر عمران خان کے حق میں ٹوئٹ کر رہی ہیں لیکن دراصل یہ طنز ہے۔
پی ڈی ایم کا جلسہ شروع ہو چکا ہے ، گیارہ چھوٹی بڑی جماعتوں کے قائدین اسٹیج پر ہیں ، وزیراعظم کو کوئی ٹینشن نہیں ، آج اُنہوں نے ٹائیگر اور شیرو کو بھر پور وقت دیا ۔۔۔ #LahoreJalsa #PDM
— Asma Shirazi (@asmashirazi) December 13, 2020
یہ بھی پڑھیے
سینیئر صحافیوں کی خبر یا انا کا مسئلہ؟
نجی ٹی وی چینل 92 نیوز سے وابسطہ میزبان معید پیرزادہ نے جانبدار صحافتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جیو نیوز کے کیمرامین اور کالم نگاروں کو 10 لاکھ لوگوں کی شرکت دکھانے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن اے آر وائے کے ظالم ڈرون کیمروں کا کیا کریں؟
Given the disappointing situation of PMLN/PDM workers, at 2.30pm, around Minar-e-Pakistan, Lahore, it looks like that Geo News cameramen & Urdu columnists will have to work hard to collect One Million people by evening prayers! But what about ARY’s cruel Drone cameras?
— Moeed Pirzada (@MoeedNj) December 13, 2020
ایک اور حکومت نواز نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے میز بان ارشد شریف نے ٹوئٹ کیا جس میں کہا کہ حکومتی وزراء عمران خان کی طرح اپنے پالتو کتوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپوزیشن جلسے کی کوئی ٹینشین نہیں ہے۔
#PDMLahoreJalsa is least worry for #PTI minister @MuradSaeedPTI as he spends time with Harry just like @ImranKhanPTI spending time with his pets in #BaniGala.
Harry, the white #GermanShepherd of #MuradSaeed is love ❤️ just like Ghost of #JohnSnow in #GameOfThrones pic.twitter.com/NNl9hr9vsw— Arshad Sharif (@arsched) December 13, 2020
کرائم رپورٹر سے میزبان بننے والے نجی ٹی وی چینل جی این این کے ہوسٹ عمران خان نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہہ دیا کہ ‘لاہور توقعات پر پورا نہیں اترا’۔
Lahore didn’t respond as expected pic.twitter.com/WqbE9YJvnW
— Imran Khan (@ImranRiazKhan) December 13, 2020
دنیا بھر میں صحافتی ادارے اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور ادارے سے منسلک صحافیوں کی ساکھ اور غیر جانبداری کا تحفظ کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سخت پالیسی اپناتے ہیں۔ صحافیوں کو سوشل میڈیا پر ایسا کوئی بھی بیان دینے پر پابندی ہوتی ہے جس سے کسی کی حمایت یا مخالفت کا شائبہ بھی ہو۔
لیکن پاکستان میں اِس کے برعکس چند سینئر صحافی پورے ادارے کی نا صرف پالیسی طے کرتے ہیں بلکہ خود اسے سوشل میڈیا پر آگے بھی بڑھاتے ہیں۔ اور حالیہ چند سالوں کے دوران اُن کی ساکھ بھی اِس طری متاثر تو ہوتی ہے لیکن مخالف کیمپ میں۔ یعنی حکومت نواز صحافی حزب مخالف کے کیمپ میں نا پسندیدہ اور حکومتی کے کیمپ میں سب سے اعلی سمجھا جاتا ہے۔
میڈیا کا کام حقیقت اور سچ دکھانا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ کام صرف ذاتی پسند یا نا پسند یا پھر ادارے کے مالک کی ترجیح کے مطابق ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے