پی ڈی ایم کے جلسے، کیا کھویا کیا پایا؟

اب تک پی ڈی ایم نے ملک بھر میں 6 جلسے کیے ہیں۔ان کے کامیاب یا ناکام ہونے کے بارے میں متضاد آراء ہیں لیکن سیاسی ماحول ضرور گرم ہوا ہے

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے شیڈول کے مطابق 6 جلسے ہوگئے ہیں۔ حزب اختلاف کے مطابق 31 تاریچ کو حکومت کے واپس جانے کا وقت ہے۔ ہر اپوزیشن کی ہر جماعت اپنے اپنے شہر سے قافلے کی شکل میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔

پی ڈی ایم کا شیڈول کے مطابق آخری جلسہ 13 دسمبر کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں تاریخی منٹو پارک میں ہوا جس کا نام اب گریٹر اقبال پارک ہے۔ مسلم لیگ (ن) اِس جلسے کی میزبان تھی۔ جلسے میں (ن) لیگ کا مقصد لاہور میں طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

اس میں پی ڈی ایم کی 10 جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنے ہی گڑھ میں پاور شو کرنے میں بظاہر ناکام رہی ہے۔ جبکہ جلسے میں بدنظمی کے واقعات بھی ہوتے رہے۔

کارکنان کی تعداد اور پارٹی عہدیداروں کی ذمہ داریاں

 جلسے کےلئے مریم نواز نے پارٹی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جلسے میں لانے کی ذمہ داری دی تھی۔ ذرائع کے مطابق ایک ایم این اے کو 300، جبکہ ایک ایم پی اے کو 200 افراد لانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اس جلسے کے لیے  2 سے ڈھائی لاکھ افراد کا اندازہ کر رہی تھی۔

نیوز 360 نے جلسہ گاہ کا مکمل سروے کرتے ہوئے دیکھا کہ کئی ارکان اسمبلی اپنے اسٹاف کے ہمراہ پہنچے۔ ہر رکن اسمبلی 20 سے 25 افراد سے زیادہ لوگ لانے میں ناکام رہا۔ اس طرح جلسے میں 10 جماعتوں کے کارکنان مل کر بھی بمشکل ہی جلسہ گاہ کو بھر سکے۔

جلسہ شام 5 بجے کے قریب شروع ہوا جس وقت آدھے سے زیادہ جلسہ گاہ خالی تھی۔ جبکہ اندھیرا ہوتے ہی لوگ اپنی اپنی ٹولیوں کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچے۔ اسپیشل برانچ نے جلسے کے حوالے اپنی رپورٹ میں 4 سے 5 ہزار افراد ظاہر کیے ہیں۔

اپوزیشن رہنماؤں کا خطاب

لاہور میں  مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا۔ اب حکومت عوام کی ہوگی۔ دھاندلی کے ذریعے حکمرانوں کو مسلط کیا گیا۔ لاہورجلسہ مستقبل کے لیے سنگ میل ہوگا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں انارکی دیکھ رہا ہوں۔ ہمیں انارکی سے پہلے حالات کو سنبھال لینا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3 سال تک این آر او نہ دینے کا اعلان کرنے والا خود این آر او مانگ رہا ہے۔ لیکن تابعدار کو این آر او نہیں ملے گا۔ 3 سال قبل کون کہتا تھا کہ جلسے نہیں کرنے دے گا؟ کٹھ پتلی کی حکومت کچھ نہیں اسکینڈلز کی حکومت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم جلسے پر عوام کی آراء

بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا کہ ہم اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں ہوگی۔ عمران خان کو بھگا کر ہی بات ہوسکتی ہے۔ آپ کو عوام کا فیصلہ سننا پڑے گا۔ گلگت سے لے کر لاہور، لاہور سے کراچی، کراچی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے پشاور تک ایک آواز گونج رہی ہے کہ میرے ووٹ پر ڈاکا نامنظور۔ لاہور پر ڈاکا، جمہور پر ڈاکا، آئین پر ڈاکا نامنظور۔

پی ڈی ایم جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ جب عوامی طاقت کا سیلاب آتا ہے تو بزدلانہ رکاوٹیں تنکوں کی طرح بہہ جاتی ہیں۔ 2018ء میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کے ذریعے کٹھ پتلی کو مسلط کیا گیا۔ جب بھی پی ڈی ایم اور مولانا فضل الرحمان فیصلہ کریں گے، مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی استعفے دے دیں گے۔

پشنونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا کہ لاہور انگریز سامراج کا حصہ رہے۔ انہوں نے ہندو اور سکھوں سے مل کر انگریز کا ساتھ دیا۔ لاہوریوں نے انگریز کے ساتھ مل کر افغان سرزمین پر قبضے کی کوشش کی۔ مجھے دکھ ہے کہ لاہوریوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔

اس بیان پر محمود اچکزئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں انہوں نے اگلے روز لاہوریوں کے متعلق اپنے بیان پر لاہوریوں سمیت پنجابیوں سے معافی مانگ لی۔

حکومتی ردعمل

حکومت نے پی ڈٰی ایم کے جلسے کو ناکام قرار دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جلسے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے جلسہ کو ‘جلسی’ لکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں ‘سماجی دوری’ کے تحت ایس او پیز کی پیروی کرتے ہوئے جلسی میں شریک لوگوں کی تعریف کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم اور حکومت کے درمیان کیا ہونے والا ہے؟

پی ڈی ایم کی کُل جماعتیں اور اب تک کے جلسے

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں کُل دس جماعتیں ہیں۔ اب تک پی ڈی ایم  نے ملک بھر میں 6 جلسے کیے ہیں۔ پی ڈی ایم کی سربراہ جماعت جمیت علماء اسلام (ف) کر رہی ہے۔ اپوزیشن کے اس اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمیت علماء پاکستان، مرکزی جمعیت اہلحدیث، نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔

  1. پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ 16 اکتوبر کو گوجرانولہ میں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہوا۔
  2.  پیپلزپارٹی کی میزبانی میں 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا۔
  3.  کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت مرکزی جمعیت اہلحدیث، نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی کی میزبانی میں 25 اکتوبر کو ہوا۔
  4. جمیعت علماء اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی میزبانی میں 22 نومبر کو پشاور میں ہوا۔
  5. پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی میزبانی میں 30 نومبر کو ملتان میں ہوا۔
  6. آخری یعنی چھٹا جلسہ لاہور میں (ن) لیگ اور جمعیت اہلحدیث کی میزبانی میں 13 دسمبر کو ہوا۔

اراکین اسمبلی کے استعفے

  پی ڈی ایم قیادت کی طرف سے استعفوں کا اعلان ہوتے ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اپنی قیادت کو اسمبلی کی رکینت سے استعفےٰ جمع کروا دیئے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے جمع کروائے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے بھی 15 سے زیادہ ارکان نے استعفے دیئے۔ وہیں مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے بھی اپنے اپنے قیادین کو استعفے جمع کروائے۔

لاہور میں ریلیاں اور مقدمات

پی ڈی ایم کا آخری جلسہ لاہور میں ہونا تھا جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور میں عوام کو جلسے میں شرکت کرانے کے لیے ریلیاں بھی نکالیں۔ ان ریلیوں کے ذریعے مریم نواز نے خوب سیاسی طاقت دکھائی اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان ریلیوں کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) ارکان اسمبلی اور عہدیدادروں سمیت ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والے ڈی جے بٹ اور لاہور کی مشہور لکشمی چوک پر موجود نجی ریسورنٹ (بٹ کڑاہی والے) کو بھی سیاسی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم کے استعفے اور مجبوریاں

اب تک مختلف پولیس اسٹیشنز میں ایک درجن سے زیادہ مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ جبکہ لاہور جلسے میں سرکاری املاک کے نقصان پر پی ایچ اے نے بھی مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری املاک کو نقصان اور تاریخی ورثے کی پامالی کو جواز بناتے ہوئے پی ایچ اے نقصان کا تخمینہ لگا کر مقدمہ درج کروائے گی۔

حزب اختلاف کا حکومت مخالف اگلا لائحہ عمل

14 دسمبر بروز پیر کو ہونے والی پی ڈی ایم کی جماعتوں کا اجلاس جاتی امراء میں مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں چار گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کارکن لانگ مارچ کی تیاری شروع کردیں۔

پی ڈی ایم کے اسٹیرنگ کمیٹی نے صوبوں کو لانگ مارچ کی تیاری کے سلسلے میں جو شیڈول دیا ہے وہ بدستور برقرار رہے گا۔ عمران خان کے پاس 31 جنوری تک کا وقت ہے۔ اس کے بعد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ وزیراعظم دباؤ میں آکر این آر او کا راگ الاپ رہے ہیں۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کو اب پیچھے جانا ہوگا۔ عمران خان استعفیٰ دیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام فیصلہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پی ڈی ایم تاریخ بدل دے گی؟

متعلقہ تحاریر