حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان اعصاب کی جنگ

حزب اختلاف حکومت کو ختم کرنے کے لیے تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے اور حکومت یہ ظاہر کرنا چاہ رہی ہے کہ اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور حکومت کے درمیان اعصاب کی جنگ جاری ہے۔ پی ڈی ایم جلسوں، ریلیوں اور استعفوں کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہے جبکہ حکومت سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت کرانے اور اِن جلسوں کی کوریج کو منظر عام سے ہٹانے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔

پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اب تک کل 6 جلسے کر چکی ہے۔ اِس کے علاوہ لاہور میں مریم نواز چھوٹی بڑی عوامی ریلیاں بھی کر چکی ہیں۔ جس پر حکومت اور انتظامیہ نے اُن کے خلاف براہ راست کارروائی تو نہیں کی البتہ ڈی جے بٹ اور بٹ کڑاہی والے کے خلاف مقدمات قائم کیے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے 6 دسمبر کو لاہور میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے حکومت جانے کی تاریخ کا حتمی طور پر اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ‘8 دسمبر کو آر یا پار ہوگا’۔

لیکن 8 دسمبر کو پی ڈی ایم کا اجلاس ضرور ہوا اور کچھ آر یا پار نہ ہوا البتہ 13 دسمبر کو آخری دھکا دینے کی دھمکی گئی  اور مینار پاکستان پر عوام کی بڑی تعداد جمع کرنے کے دعوے کیے گئے۔  اُدھر حکومت نے پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کرنے والوں کے لیے مشکلیں کھڑی کرنے کے لیے جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا جو دو روز بعد تک سوکھ نا سکا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ہجوم سردی کے موسم میں بڑی تعداد میں ایک جگہ جمع نا ہوگا۔

 13 دسمبر کو جلسہ ضرور ہوا لیکن حکومت نہیں گِری۔ پی ڈی ایم نے اس جلسے سے قبل فیصلہ کیا کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں 31 دسمبر تک اپنے اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے مولانا فضل الرحمان کے پاس جمع کرادیں گی تاکہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن وار کیا جاسکے۔ جلسے کی کوریج اخبارات میں روکنے کے لیے تمام اخبارات کے صفحہ اول پر اشتہارات دیئے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

اخبارات یا سائن بورڈز؟

حزب اختلاف کے استعفوں کے اعلان پر حکومت کا کہنا تھا کہ استعفے دیں ہم ضمنی انتخابات کرادیں گے۔

اِس پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بیان داغ دیا کہ حکومت 31 جنوری تک مستعفی ہوجائے ورنہ یکم فروری کو  لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ اِس پر حکومت کی جانب سے وزیر اطلاعات نے کابینہ کے اجلاس کے بعد بیان دیا کہ وہ فروری کے مہینے میں ہی سینیٹ کے انتخابات کرادیں گے پھر لانگ مارچ ہوتا رہے۔

دوسری جانب پی ڈی ایم کی دھمکیوں کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔ منگل کو پریس کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پی ڈی ایم کی ڈیڈ لائن مسترد کردی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔

 وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت نے سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے تحت کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹ انتخابات قبل ازوقت بھی ہوسکتے ہیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان خود بھی خاصے پُرسکون دکھائی دے رہے ہیں۔ 13 دسمبر کو ہی وزیراعظم نے اپنے پالتو کتے ‘شیرو’ کے ساتھ تصویر شیئر کی۔ ملک کا بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت اپنی جگہ لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے حکومت 11 فروری سے قبل سینیٹ کے انتخاب نہیں کراسکتی اِس کے بعد کسی بھی وقت یہ کام قانونی طور پر ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم کے جلسے، کیا کھویا کیا پایا؟

متعلقہ تحاریر