پیپلزپارٹی ایم کیو ایم ملاقات حکومت مخالف نیا اقدام؟
پیپلز پارٹی نے اپنی نئی حکمت عملی کے تحت مرکزی اور صوبائی سطح پر حکومت کی حلیف مگر ناراض جماعتوں سے رابطے بڑھا دیے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے وفد نے بدھ کے روز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان سے ملاقات کی۔ دونوں جماعتوں کی قیادت نے کراچی سے متعلق سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ایم کیو ایم پاکستان سے ملاقات پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد ہوئی ہے جس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ اسٹریٹجک اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ اس لیے اس ملاقات کوپیپلز پارٹی کا کوئی نیا سیاسی اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکزمیں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اقتدار میں شریک ہے۔ چند روزقبل اس نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے کراچی سے متعلق کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔ حالانکہ وفاق نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کرے گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے اقدامات سے یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم سے اختلافات سامنے آنے کے بعد اب پیپلز پارٹی مرکزی اور صوبائی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اقتدارمیں شریک مگر ناراض جماعتوں سے رابطے بڑھا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پیپلز پارٹی کا جلسہ ایک، پیغامات دو
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد میں شامل دیگرجماعتوں کی طرح صلیبی جنگ کا انتخاب کرنے کے بجائے وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے جمہوری راستہ منتخب کرے گی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے ملاقات کے بعد اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ق) اوربلوچستان میں عوامی پارٹی (بی اے پی) سے بھی رابطے کر سکتی ہے۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اتحادیوں کے تحفظات کا فائدہ اٹھائے گی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے دفاترمیں پیپلز پارٹی کے وفد کا دورہ تحریک انصاف حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ آئندہ ہونے والی ملاقاتوں کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے حال ہی میں وفاقی حکومت کے ساتھ کافی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی خود کو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سب سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل اختیار کر سکتی ہے جو حکومت کی سمجھ سے بالاتر ہو۔
یہ بھی پڑھیے