سینیٹ کے انتخاب میں کیا اِس بار بھی ووٹ بکے گا؟ کتنے میں؟

سیاسی حلقے دعویٰ کرتے ہیں ہیں کہ سینیٹ کے گذشتہ انتخابات میں چھوٹے صوبوں سے بعض نشستوں کے لیے 26 کروڑ روپے تک خرچ کیے گئے جبکہ آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخاب میں بعض نشستوں  کی بولی 34 سے 35 کروڑ روپے ہے

سینیٹ کے انتخاب کی گہما گہمی جاری ہے۔ انتخاب تو مارچ میں ہوگا مگر ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ کچھ معاملات مختلف ہیں۔ سینیٹ کے انتخاب میں رائے شماری خفیہ ہونی چاہیے یا کھلے ووٹ (اوپن بیلٹ) کے ذریعے؟

یہ بحث پہلے بھی ہوتی رہی ہے مگر اس مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے رائے شماری کی نہ صرف خواہشمند ہے بلکہ اس کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر چکی ہے اور پارلیمان میں باقاعدہ قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔

وزیراعظم اور وفاقی وزراء سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کھلے عام ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ایسا سینیٹ کے تمام انتخابات میں ہوتا رہا ہے مگر الیکشن کمیشن سمیت کوئی ادارہ آن ریکارڈ اس کا اعتراف نہیں کرتا۔

ماضی میں ارکان پارلیمنٹ سے پیسے لے کر سینیٹ میں ووٹ دینے کے معاملے پربات کی جاتی ہے تو وہ مسکرا کر ٹال جاتے تھے مگر اب اس کا برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ان کے اراکین صوبائی اسمبلی انتخابات میں 5،5 کروڑ روپے لے کر ووٹ دیے جس پر تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے 20 ارکین صوبائی اسمبلی کے خلاف پارٹی نے کارروائی کی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ انتخابات کے اخراجات کی حد 15 لاکھ روپے ہے اس لیے الیکشن کےلیے کھلوائے گئے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے سے زائد رقم نہ رکھی جائے۔ بظاہر سینیٹ کے امیدوار اس مقررہ حد سے بھی کم رقم خرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض امیدوار سینٹ انتخاب جیتنے کے لیے مبینہ طور پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ انتخابات میں (ن) لیگ سارےووٹ لے گی، عظمیٰ بخاری کا دعویٰ

سینیٹ الیکشن

تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ انہوں نے25 ہزار 690 روپے میں سینیٹ کا الیکشن لڑا اور ان کا کوئی ساتھی سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فرخت کا حصہ نہیں بنا۔ لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ سینٹ الیکشن میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ بعض پارٹیوں کے اراکین اسمبلی کی تعداد کم لیکن سینیٹرز ذیادہ ہیں اس کی بنیادی وجہ ووٹوں کی خرید و فرخت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ کے آئندہ ہونے والے الیکشن کے لئے بھی بولیاں لگ چکی ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے ہے کہ سینیٹ انتخاب میں بلوچستان کے اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے جس کے بعد بتدریج  خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب اسمبلی  کے اراکین کے ووٹ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بلوچستان اور پھر خیبرپختونخوا میں میں سب سے زیادہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی شکایات سامنے آئیں۔

سینیٹر بننا کیوں اہمیت رکھتا ہے؟

ایک موجودہ سینیٹرکا کہنا ہے کہ سینیٹر بننا خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد 1000 سے زیادہ بنتی ہے جبکہ ایوان بالا کہ ارکان کی تعداد صرف 104 ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر بننا چاہے مالی طور پر منفعت بخش نا ہو مگر سینیٹ کی رکنیت بہت اہمیت رکھتی ہے ۔

سینٹ کی ایک نشست کے لیے کتنی بولی؟

سیاسی حلقے دعویٰ کرتے ہیں ہیں کہ سینیٹ کے گذشتہ انتخابات میں چھوٹے صوبوں سے بعض نشستوں کے لیے 26 کروڑ روپے تک خرچ کیے گئے جبکہ آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخاب میں بعض نشستوں  کی بولی 34 سے 35 کروڑ روپے ہے تاہم الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے اس کی تصدیق نہیں کرتے۔

 ووٹوں کی خرید و فروخت سے متعلق وفاقی وزیر کا بیان

انسداد منشیات کے وزیر اعجاز شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں پیسے لگنے شروع ہوگئے ہیں۔ حکمراں جماعت پی ٹی آئی چاہتی ہے ایوان بالا کے الیکشن میں اوپن بیلٹ ہو۔ تاریخ گواہ رہے گی سینیٹ الیکشن میں کون دھاندلی چاہتا ہے۔

104 رکنِ ایوان بالا سینیٹرز کی موجودہ تعداد 103 ۔

ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اراکین کی تعداد آئینی طور پر 104 ہے تاہم مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار  کی جانب سے بطور سینٹر حلف نہ اٹھانے کے باعث اب یہ تعداد 103 ہے۔ سینیٹ کےآئندہ ماہ ہونے والے انتخاب  میں 6 برس کی مدت مکمل کرنے والے سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے سبب خالی ہونے والی  48 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔

سینیٹ 104 اراکین پر مشتمل ہے جن میں ہر صوبے کی 23 نشستیں ہیں جن میں 14 جنرل، 4 خواتین، 4 نشستیں ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن کے لیے ہے۔ سینٹ میں اسلام آباد کے لیے 4 اور فاٹا کی 8 نشستیں ہیں۔

فاٹا کا انضمام نشستیں ختم

قبائلی علاقہ جات فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد رواں برس  4 نشستیں خالی ہو رہی ہیں لیکن اُن پر انتخاب نہیں ہوگا۔ مزید 4 نشستیں 3 برس بعد خالی ہو جائیں گی۔

سینٹ کی نشستیں 104 سے 100 ہو جائیں گی

فاٹا کی نشستیں ختم ہونے سے رواں برس مارچ کے انتخاب کے بعد سینیٹ کے ارکان کی تعداد 100 اور آئندہ 3 برس بعد سینٹ ارکان کی تعداد 96 ہو جائے گی۔ 11 مارچ 2021 کو اپنی 6 سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہونے والے 65 فیصد سے زائد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔

صحافیوں

الیکٹورل کالج کیسے تشکیل پاتا ہے؟

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس جماعت کے اراکین کی تعداد کتنی ہے۔ اس سے سینیٹ میں الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے۔ 2018  کے سینیٹ انتخاب کے بعد سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی اکثریت ہے۔ تاہم آئندہ انتخاب میں حزبِ اختلاف اکثریت برقرار رکھنے کی قوت نہیں رکھتی ہے۔

 مارچ میں موجودہ 103 اراکین سینیٹ میں سے 52 اراکین ریٹائر ہورہے ہیں جن میں 34 کا تعلق اپوزیشن اور 18 کاحکومت سے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ 30 میں سے 17 سینیٹرز مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں۔ جن میں اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق، پارٹی کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، آغا شہباز درانی، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان، اسد اشرف، غوث محمد نیازی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، جاوید عباسی، نجمہ حمید، پروفیسر ساجد میر، راحیلہ مگسی، سلیم ضیا اور سردار یعقوب ناصرشامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی کی سینیٹ الیکشن کی تیاری اور حزب اختلاف کے خالی وار

پیپلز پارٹی کے  21 مئی سے 8 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے جن میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک، فاروق نائیک، اسلام الدین شیخ، سسی پلیجو، گیان چند اور میر یوسف بادینی شامل ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی (این پی) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، 2 اراکین اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم)، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک، ایک سینیٹر آئندہ مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں۔

حکومتی جماعت تحریک انصاف کے 14 میں سے 7 ریٹائر ہورہے ہیں جس میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہےجن میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز، محسن عزیز، نعمان وزیر، بریگیڈیئر (ر) جوہن کیتھ ویلیمز، لیاقت ترکئی، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ شامل ہیں۔

 ریٹائر ہونے والے دیگر 18 سینیٹرز میں سے 4 کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ اور 3 کا بلوچستان عوامی پارٹی جبکہ 4 آزاد اُمیدوار سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ہیں۔

ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن اور جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری بھی مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی واحد سینٹرستارہ ایاز بھی ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔

سراج الحق بھی سینٹ سے ریٹائر ہو جائیں گے

جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق بھی ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں شامل ہیں۔

 ایم کیو ایم کی نگہت مرزا، بی اے پی کے سرفراز بگٹی، منظور احمد اور خالد بزنجو، پی کے میپ کی گل بشریٰ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیر محمد شہی اور بی این پی مینگل کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی سینٹ سے ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔ آزاد اُمیدوار اورنگزیب خان، مومن خان آفریدی، سجاد حسین توری اور تاج محمد آفریدی بھی مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔

رواں برس مارچ میں ایوانِ بالا سے ریٹائرڈ ہونے والے سینیٹرز میں سے  سندھ اور پنجاب کے 11، 11 ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے 12 ,12اراکین شامل ہیں۔

سینیٹ کے آئندہ ماہ ہونے والے انتخاب میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے28 نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ)کی سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی 19 نشستوں کے ساتھ دوسری، مسلم لیگ نواز 18 نشستوں کے ساتھ تیسری اور بلوچستان عوامی پارٹی کے 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بننے کا امکان ہے۔

سینیٹ انتخاب کا پیچیدہ طریقہ کار

ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اراکین کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سینیٹ انتخاب اب تک خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اب حکومتِ وقت اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا بل ایوان میں پیش کر چکی ہے۔ ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیاں سینیٹ کے انتخاب کا الیکٹورل کالج ہیں جن کے ارکان اپنے صوبے سے سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔

قومی اسمبلی

اسلام آباد کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوتی ہے اور قومی اسمبلی کے ارکان راۓ شماری میں حصہ لیتے ہیں۔ الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد  کو متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد، مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔

پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 371 ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی 7 خالی جنرل نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ ارکان کی کل تعداد 371 کو خالی نشستوں کی تعداد 7 سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی 53 بنتی ہے۔ اس طرح پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔

ٹینکنوکریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستیں، جن پر متعلقہ صوبے میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان کو 371 نشستوں پر تقسیم کرنے سے ہر نشست کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً پنجاب میں خواتین کی 2 نشستوں کو کل ارکان 371 پر تقسیم کیا جائے تو مطلوبہ ووٹوں کی تعداد  186 بنتی ہے۔ ترجیحی ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔ دوسری صورت میں ترجیحی ووٹ سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور ایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔

اگر بلوچستان سے سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں پر اگر 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو بلوچستان اسمبلی کے تمام ارکان کو ایک ایسا بیلٹ پیپر دیا جائے گا جس پر تمام 20 امیدواروں کے نام بغیر انتخابی نشان کے درج ہوں گے۔ ووٹ دینے والے ارکانِ پنجاب اسمبلی بیلٹ پیپر پر تمام امیدواروں کے نام کے آگے ایک سے 20 تک کا ترجیحی ہندسہ درج کریں گے اس طرح سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ یعنی ایک کا ہندسہ حاصل کرنے والا امیدوار سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔

اگر وہ امیدوار مقررہ ووٹ سے زائد مرتبہ ایک کا ہندسہ حاصل کرتا ہے تو تمام اضافی ایک یعنی اضافی ووٹ دوسری ترجیح حاصل کرنے والے امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور یوں یہ عمل 7 سینیٹرز کے انتخاب تک دُہرایا جائے گا۔

سینیٹ کے انتخاب کے اسی طے شدہ فارمولے کے تحت، جنرل نشستوں کے انتخابات میں، بلوچستان اسمبلی سے 9، خیبر پختونخوا اسمبلی سے18 اور  سندھ اسمبلی سے 24 ووٹ لینے والا امیدوار  کامیاب قرار پائے گا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے 18 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں پر امیدوار کو کامیابی کے لیے 9 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ اسلام آبا کی 2 نشستوں پر ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پوری قومی اسمبلی ووٹ دے گی۔ اسلام آباد کی جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں بھی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب تصور کیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر