کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے؟

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مافیا کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ غیرقانونی عمارتوں کے باعث شہر کی خوبصورتی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں غیرقانونی عمارتوں کی تعمیرات کا سلسلہ عدالتی احکامات اور حکومتی دعوں کے باوجود رک نہیں پایا ہے۔ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں غیرقانونی عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں یا پھر پہلے سے تعمیر شدہ عمارتوں پر منزلیں بنائی جا رہی ہیں۔

کراچی کے کئی علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پرتعمیر ہونے والی عمارتوں کی مانیٹرنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) اِن قانونی تعمیرات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ ایس بی سی اے میں عملے کی غیرحاضری اور مافیا کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مافیا کا شہر میں کثیرالمنزلہ راج ہے۔

کراچی کی عمارتیں

کراچی عمارتوں کے جنگل اور بےترتیب تعمیرات کے طور پر پہچانا جانے لگا ہے۔ غیرقانونی عمارتوں کے باعث شہر کی خوبصورتی کو اجاڑا جارہا ہے اور تنگ گلیوں کے باعث اکثر علاقوں سے گزرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

کراچی کے پسماندہ علاقے میں کوئی واقعہ پیش آنے کی صورت میں امدادی کارروائیوں کے لیے ریسکیو ٹیموں کا پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ عمارتیں زیادہ بننے کے باعث عمارتوں کے اِس جنگل میں گندگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

کراچی کی عمارتیں

کراچی میں جہاں نظر جائے کوئی نا کوئی غیرقانونی عمارت ضرور نظر آئے گی اور معمولی سی تحقیق کے بعد معلوم ہوگا کہ کسی با اثر آدمی یا ادارے کی مرضی سے بنی ہے۔ کراچی کے علاقے دہلی کالونی، پنجاب کالونی، صدر، گلبرگ اور لیاقت آباد سمیت پورے شہر میں غیرقانونی عمارتوں کی تعمیرات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اِن غیر قانونی علارتوں کے بنانے والے بعض اوقات 40 سے 50 گز کے پلاٹس پر کئی کئی منزلہ عمارتیں بنا کر بیچ رہےے ہیں اور انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تجاوزات ہٹانے کا آپریشن ”قانونی‘‘ وجوہات کی بنا پر ملتوی

اس حوالے سے سینئر صحافی اور مصنف اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ شہر کی رکھوالی کرنے والا اب کوئی نہیں رہا۔ کچھ پرانی کمیونٹیز اپنے گھر نہیں چھوڑ رہیں۔ فیملی بڑھنے کے ساتھ اوپر اپنے گھر کی منزلیں بڑھا لیتے ہیں۔ مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث شہر کا حال برا ہوگیا ہے۔ سوچنے پر مجبور ہیں کہ انتظامیہ اجازت کیسی دے سکتی ہے؟ پرانی عمارتوں کو ختم کر کے نئی بلڈنگ بنائی گئیں جہاں پانی ہے اور نہ ہی کوئی اور سہولت۔ پارکنگ ملنا دشوار ترین ہوتا جا رہا ہے۔ خدا نہ کرے سونامی جیسا واقعہ ہو، لیکن اگر ایسا ہوا تو اس شہر کو بڑی تباہی کا سامنہ کرنا پڑ سکتا ہے۔

کراچی کی عمارتیں

اس ضمن میں سابق ایڈمنسٹر بلدیہ عظمی کراچی کیپٹن ریٹائرڈ فہیم الزمان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود نو گو ایریا آج تک ختم نہیں ہوسکے ہیں۔ پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ کوئی عمارت گر جائے تو قسمت کی بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نااہلی کے سبب ایسے واقعات پیش آتے ہوں۔ قبضہ مافیا سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے سرکولر ریلوے کے سرکاری پھاٹکوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔

جوائنٹ سیکرٹری یو آر سی زاہد فاروقی کا کہنا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کوئی ہاؤسنگ اسکیم ہے اور نہ ہی کوئی پانی کا نظام۔ اولڈ سٹی کو بھی محفوظ نہیں کیا جارہا۔ کراچی کی حد اب آبادی کے لحاظ سے بڑھ رہی ہے۔ لوگ روزگار کے سلسلے میں پورے پاکستان سے اس شہر کی طرف آرہے ہیں۔

جبکہ وزہر بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ 900 سے زائد غیرقانونی عمارتوں کو گرایا گیا ہے۔ مالکان پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں۔ شہر میں ایک بلڈنگ کچھ عرصہ پہلے گری جس کے مالک کو ملتان سے پکڑ کر لایا گیا۔ عمارتوں سے متعلق نئے بورڈز بنائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اجازت دے دی ہے۔ غیرقانونی عمارتیں بنانے والوں کے خلاف فیصلے جلدی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ لوگ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی سے پیسے بنا کر گھر بناتے ہیں۔ حکومت مکان کو گرانے کی کوشش کرتی ہے تو ان پر کیا گزرتی ہوگی؟ اس لیے ان قبضہ مافیا بلڈرز کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ قانون سازی موجود ہے کہ کون سے پلاٹ پر کیا بننا چاہے؟ بس اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

کراچی کی عمارتیں

شہریوں کی رائے ہے کہ راتوں رات عمارت کھڑی ہوجاتی ہے۔ اونچی عمارتوں کے باعث اب کھلی ہوا میں سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ متعلقہ اداروں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

”شہر ٹرانسپورٹ کے لحاظ سے مکمل تباہ ہوچکا ہے‘‘

متعلقہ تحاریر