کیا پاکستانی پروفیسرز "اکیڈمک فراڈ” کر رہے ہیں؟

پروفیسرز جو کہ اپنے 30 سالہ کیرئیر میں 1000 ریسرچ پیپرز شائع کرتے ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر ہفتے صرف ایک ریسرچ پیپر شائع کیا، عمر سیف

ایک آن لائن سروے پلیٹ فارم چلانے والے عمر سیف نامی ٹوئٹر صارف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ وہ پاکستانی پروفیسرز جو کہ اپنے 30 سالہ کیرئیر میں 1000 ریسرچ پیپرز شائع کرتے ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر ہفتے صرف ایک ریسرچ پیپر شائع کیا۔

عمر سیف نے مزید لکھا کہ یہ کہنا اکیڈمک فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔

بات یہ ہے کہ ہمیں یہ عادت پڑگئی ہے کہ کسی شعبے سے ہمارا تعلق ہو یا نہ ہو اس پر لب کشائی کرنا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نادیہ نوی والا کی کوششوں نے طالب علم کے خواب بدل دیے

وزیر تعلیم پنجاب کا ایچی سن کالج کو سنگل نیشنل کریکولم پر عمل نہ کرنے پر انتباہ

عمر سیف پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین رہ چکے ہیں لیکن وہ پی ایچ ڈی اسکالرز پر یا اکیڈمیا کے موضوعات پر کمنٹس دینے کے مجاز نہیں ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز علی نے عمر سیف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جعلی یا چوری کیا گیا ڈیٹا شائع کرنا فراڈ ہے، صرف ہفتے میں ایک بار لکھنا فراڈ نہیں۔ معیاری کام شعبے پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ایک اور ٹوئٹر صارف محمد شعیب نے کہا کہ جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے معیار کے بجائے تعداد کی شرط ہو تو لوگ پہلے اپنی ملازمت بچاتے ہیں۔

 

کچھ افراد نے عمر سیف کی بات سے اتفاق بھی کیا۔ سید منیب ہادی نے کہا کہ ایک بار میں نے ایسے ہی ایک پروفیسر کا انٹرویو کیا۔ ان کا شائع شدہ ریسرچ پیپر بہت سے موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے تھا، میں نے ریسرچ دیکھی تو معلوم ہوا کہ اس سے زیادہ تفصیلات میں اپنی ای میلز میں لکھتا ہوں۔

متعلقہ تحاریر