عاصمہ شیرازی سیاست اور صحافت کے فرق کو بھول گئیں

وفاقی وزیر حماد اظہر نے معروف صحافی کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا مشورہ دے ڈالا ہے۔

پاکستان کی معروف صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیزاری نے حال ہی میں بی بی سی اردو میں ایک کالم تحریر کیا ہے جس میں جنتر منتر ، بھوت ، پریت اور تعویز گنڈوں کا ذکر کھل کر کیا گیا اور ملکی اداروں کے درمیان کشمکش کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کالم میں صحافتی اصولوں کو پس پشت رکھ کر انتہائی غیرمعیاری زبان استعمال کی ہے۔

کسی بھی مسئلے کے بارے میں تحریر ، جذبات ، صوتی یا پھر بصری تجربے کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کے فن کو صحافت کہتے ہیں، اور صحافت سے جڑے لوگوں کو صحافی کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے صحافیوں کو کسی کی  بھی مخالفت میں اس لیول پر نہیں آنا چاہیے جس سے یہ تاثر ملے کہ یہ سب کچھ سیاسی ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم سیکرٹریٹ کو "ڈومین” کا سبق پڑھنے کی ضرورت

قوم کی بیٹی ہو، تمہارا نام کافی ہے!

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عاصمہ شیرازی کے کالم پر کھل کر تنقید کی جارہی ہے اور انہیں مریم نواز اور نواز شریف کا تنخواہ دار بھی کہا جارہا ہے۔

عاصمہ شیرازی کے کالم پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر حماد اظہر نے انہیں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا مشورہ دے دیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کے کالم پر ردعمل دیتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تحریر کیا ہے کہ ” آپ کے کالم کا عنوان ہونا چاہئے مریم کی کہانی آصمہ کی زبانی۔ آپ کے اس طرح کے زاتی حملوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ دو ہی تو مہارتیں ہی ن لیگ کی۔سرکاری مال کھانا اور زاتی کردار کشی کرنا۔”

پاکستانی صحافت کے انتہائی معتبر نام مبشر زیدی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” بصد احترام عاصمہ درج ذیل الفاظ صحافت کے زمرے میں نہیں آتے۔ حیران ہوں بی بی سی اردو نے کیسے اس تحریر کو چھپنے دیا۔”

غیرجانبدار صحافتی برادری کا کہنا ہے کہ عاصمہ شیرازی کے کالم میں صحافتی زبان استعمال نہیں کی گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جناب ، بھوت ، پریت ، تعویز اور گنڈے جیسے الفاظ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر چل سکتے ہیں لیکن ایسے الفاظ کسی صحافتی پلیٹ فارم یا کسی پرچے میں نہیں لکھے جاسکتے ہیں، اور چینل پر بیٹھ کر اس طرح کے الفاظ بولنا تو کسی بھی صورت جائز نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوسروں کو ایمانداری کا بھاشن تو اس وقت اچھا لگتا ہے کہ آپ کا ماضی داغدار نہ ہو۔ ماضی میں آپ سرکاری خرچے پر عمرہ ادا کرچکی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر آپ بہت زیادہ سیاسی ہو رہی ہیں تو بہتر ہے کہ آپ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیں۔ صورتحال یہ ہے کہ مخالفین کی جانب سے تو جو تنقید ہونی تھی ہونی تھی اب تو ان کی صحافتی برادری بھی ان پر تنقید کررہی ہے جیسے مبشر زیدی نے کالم کو صحافتی معیار کے خلاف قرار دیا ہے۔

متعلقہ تحاریر