سینیٹر رحمان ملک نے پیپلز پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی نوید سنا دی

رحمان ملک کا کہنا تھا کہ میں سب تفصیلات میڈیا سے ابھی شیئر نہیں کرسکتا تاہم ہمارے کوچیئرمین آصف زرداری جو حکمت عملی لے کر چل رہے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ اور سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے کہ دور کی بات نہیں پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ پاور (اقتدار) میں آرہی ہے۔

آج نیوز کے پروگرام روبرو کے اینکر پرسن شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عبدالرحمان ملک کا کہنا تھا موجودہ حکومت اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے ، زیادہ وقت نہیں ہے ہم دوبارہ آرہے ہیں ، ہمارے پاس ایک بہترین نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

منقسم مہاجر ووٹوں کو اکٹھا کرنے کا ٹاسک کس نےدیا؟میدان سیاست میں ہلچل بپا

ایف بی آر  ٹی ٹی ایس کے تحت شوگر مافیا سے کتنا ریونیو وصول کیا؟

ذومعنی گفتگو کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا پیپلز پارٹی کیسے اقتدار میں آئے گئی اس حوالے سے کام ہورہا ہے ، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ الیکشن سے پہلے اقتدار میں آئے گی یا الیکشن کے بعد۔

 

ایک سوال کے جواب میں رحمان ملک کا کہنا تھا کہ میں سب تفصیلات میڈیا سے ابھی شیئر نہیں کرسکتا تاہم ہمارے کوچیئرمین آصف زرداری جو حکمت عملی لے کر چل رہے ہیں اس کے نتیجے میں ہم اقتدار میں آنے والے ہیں ، وقت ابھی نہیں بتا سکتا کہ چھ ماہ میں آرہے ہیں یا ایک سال میں ۔

بے نظیر بھٹو کی 14ویں برسی

محترمہ بے نظیر بھٹو کی 14ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 میں راولپنڈی میں انتخابی جلسے سے واپسی پر دن دھاڑے خودکش حملے میں قتل کردیا گیا۔ قتل کے بعد بہت زیادہ تحقیقات ہوئیں ، پاکستان اداروں نے بھی تحقیقات کیں اور بین الاقوامی اداروں نے تحقیقات کیں ، کچھ لوگ بھی گرفتار ہوئے ، مگر آج تک یہ عقدہ نہیں کھل سکا کہ ان کے قتل کے پیچھے کیا محرکات تھے۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت اور رحمان ملک کی اسٹیٹمنٹ

سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اینکر پرسن چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، یہ کہتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات تو ہوئیں مگر نتیجہ کوئی نہیں نکلا تو میں اس سے کھلا اختلاف کروں گا۔ جب بھی کوئی کیس ہوتا ہے اس کی انویسٹی گیشن ایف آئی آر سےشروع ہوتی ہے ، جب محترمہ بےنظیر کا قتل ہوا اس وقت ہماری حکومت نہیں تھی۔ ہماری درخواستوں کے بعد ہمیں باکس سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہاں تک کہا تھا اگر آپ مجھے سیکورٹی نہیں دے سکتے تو مجھے باہر سے گارڈز لانے کی اجازت دی جائے، مگر اجازت نہیں دی گئی ۔

رحمان ملک کا کہنا تھا کہ میں نے اس وقت کی انٹیریئر منسٹری کو درجنوں خط لکھے کہ انہیں باکس سیکورٹی دیں آپ ۔

باکس سیکورٹی ہوتی کیا ہے؟

وہ گاڑی جس کو سیکورٹی فراہم کرنی ہوتی ہے اس کے آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سیکورٹی کی گاڑیاں ہوتی ہیں جبکہ ایک باقاعدہ اسکواڈ ان کو لیڈ کرتا ہے۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ 27 دسمبر کو جو بی بی شہید کو سیکورٹی فراہم کی گئی اس میں صرف ایک پولیس کی گاڑی تھی۔ میں نے اس کے وقت کے آئی جی پنجاب کو فون کیا اور سیکورٹی حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ سانحے کے تھوڑی بعد سین کو واش آؤٹ کردیا تھا۔

جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو جو انوسیٹی گیشنز چل رہیں تھیں ان تحقیقات کو ہم نے ایف آئی اے کے سپرد کردیا۔ اور پھر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ، اس جے آئی ٹی میں انتہائی قابل افسران کو شامل کیا گیا۔ انہوں نے جو انویسٹی گیشنز کیں اس کے مطابق جو ہینڈلر تھے ، جو ایسپریٹرز تھے اور جنہوں نے یہ سارا کام پورا کیا ، انہوں نے بیت اللہ محسود کے کہنے پر۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ دو خودکش حملہ آوروں سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو حملے کی جگہ پر ڈیپیوٹ کیا گیا۔ جب پہلا خودکش حملہ ہوا تو محترمہ گاڑی سے باری نکلیں ، وہ گاڑی سے کیوں باہر نکلیں ، اس پر بھی لمبی چوڑی تحقیقات ہوئیں ، تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ گاڑی سے باہر نکلنے کافیصلہ بی بی کا تھا۔ ایک رات پہلے مجھے ایک میجر جنرل کا فون آیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی بے نظیر بھٹو سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ اس وقت بی بی کے ساتھ میں اور باجی ناہید تھیں۔ رات بارہ بجے جنرل ندیم ، بے نظیر بھٹو اور میری ملاقات ہوئی ۔ جنرل ندیم نے بہت واضح کہا کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ تھریٹس ہیں۔ بی بی نے کہا کہ میں ضرور جاؤں گی آپ مجھ کو سیکورٹی دے دیں ، جو ضروری ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے صرف ایک بات واضح انداز میں کی کہ پرویز مشرف سے کہنا کہ اتنی دھاندلی کرے جتنی میں ہضم کرسکوں۔

متعلقہ تحاریر