وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی

وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے پالیسی بنانے میں 9 سال لگ گئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دےدی ہے۔

اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ منظور کی گئی قومی سلامتی پالیسی کو پہلی بار معیشت کےساتھ جوڑا گیا ہے۔ پہلی قومی سلامتی پالیسی بننے میں 9 سال کا عرصہ لگ گیا۔ ماضی میں قومی سلامتی پالیسی نہ بننے کی وجہ آپسی اختلافات تھے۔

یہ بھی پڑھیے

بھارت نے کرسمس کے دن مدرٹریسا چیریٹی کے اثاثے منجمد کردیے

دیپک پروانی نے وزیراعظم سے تحریک سول نافرمانی کی اجازت مانگ لی

میڈیا کو بریفنگ دیتےہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی پالیسی کو پہلی بار معیشت کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر معیشت طاقت ور نہیں ہے تو پھر کچھ بھی چیز آپ کی سلامتی کی گارنٹی نہیں ہوسکتی ہے۔ پالیسی میں جیو ٹریجک کے ساتھ ساتھ اکنامک اسٹراٹیجی ہے اس کو بھی ساتھ جوڑا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا ہےکہ قومی سلامتی پالیسی کا دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی اس وقت اثر انداز نہیں ہو گی جب تک عام آدمی اس سے نہیں جڑے گا۔ عام آدمی کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا ، عام آدمی کی معاشی ، سماجی اور جو قانونی حالت ہے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوگا ملک کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق رہےگا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 2014 میں اس پر کام شروع کیا گیا تھا اور 2021 میں آکر اس پالیسی کی منظوری دی گئی ہے۔ تقریباً 9 سال لگے ہیں اس پالیسی کو بنانے میں ۔ 18 سے زائد منسٹریز نے اس ترتیب دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ ماضی میں پالیسی اس لیے منظور نہیں ہوپارہی تھی کیونکہ سوچوں میں بہت زیادہ اختلاف تھا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ایسی حکومت آئی ہے جس کے اندر سب کو یکجا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایسے لیڈر ہیں جن پر ایک ایسا اعتماد ہے کہ وہ تمام نقطہ نظر کو یکجا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ ہم پہلی بار ایک لینڈمارک عبور کیا ہے۔ اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کی منظوری دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس پالیسی کے ساتھ انٹرنل سیکورٹی کی پالیسی وابستہ ہے ، اس کے ساتھ فوڈ سیکورٹی پالیسی وابستہ ہے، اور جتنی بھی منسٹریز ہیں اس کی ترجیحات بھی اس نیشنل سیکورٹی پالیسی کے منسلک ہو گئی ہیں۔

کابینہ اجلاس میں یوریا کی پیداوار کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ہے۔ یہ بات کلیئر کردینا چاہتا ہوں کہ زرعی شعبے پر حکومت کا سب سے زیادہ فوکس ہے ۔ پچھلے دو سالوں میں زرعی پیداوار میں الحمداللہ بےپناہ کامیابیاں ہمیں ملی ہیں۔ ہماری کپاس ، گنے ، چاول ، گندم اور مکئی کی جو فصلیں ہیں ان تمام کی پیداوار میں بہت بہتری آئی ہے۔ گندم ، چاول اور گنے کی تاریخ کی سب سےبڑی پیداوار ہمیں حاصل ہوئی ہے۔ الحمداللہ 11 ارب روپے کسانوں کے پاس گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت صرف کھاد کو لے کر بحران پیدا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں ڈی اے پی جو ہے اس کی قیمت تقریباً 12 ہزار روپے فی من سے اوپر چلے گئی ہے۔ ڈی اے پی پاکستان نہیں بناتا یہ ہم امپورٹ کررہےہیں ، 70 فیصد سےزیادہ ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ زرعی شعبے کو نقصان سے بچانے کے لیے ان پلانٹ کو گیس فراہم کی گئی بحران کے دنوں میں بھی تاکہ یوریا کھاد کی پیداوار نہ رکے۔ اس وجہ سے ہم پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی یوریا کی پیداوار کی ہے۔ عالمی منڈی میں یوریا کھاد کی بوری کی قیمت 10 ہزار سے 12ہزار روپے ہے جبکہ جو ملکی سطح پر یوریا کھاد تیار کی جارہی ہے وہ 17 سو روپے سے 18 سو روپے میں دستیاب ہے۔ حکومت کے پاس یوریا کھاد کا اسٹاک بھی وافر مقدار میں موجود ہے اور اس کی قیمت بھی بہت اسٹے ایبل ہے۔ یوریا کھاد کا جب ایک ٹرک اسمگل ہوتا ہے تو اس پر آپ 78 سے 80 لاکھ روپے کماتے ہیں۔ جب اتنا بڑا فائدہ ہوتا ہےتو اس کو دیکھتےہوئے پرائیویٹ سیکٹر میں گڑبڑ شروع ہوئی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے اس اسمگلنگ پر بڑا افیکٹو ایکشن لیا ہے ، جہاں جہاں یوریا کھاد کی قلت ہے اگلے چند دنوں میں ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں صرف سیاستدان ہی رہ گئے جن کے اتنے زیادہ اثاثے عوام کے سامنے آتے ہیں۔ باقی کسی شعبے کے اوپر اتنی اکاؤنٹیبیلیٹی نہیں ہے جتنا احتساب سیاستدانوں کو ہورہا ہے۔

متعلقہ تحاریر