سرکاری ملازمتوں کے صوبائی کوٹے میں 20 سال کی توسیع

چیرپرسن کشور زہرہ نے کہا ہے بین الاقومی قرضوں سے نجات کیلئے عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کو اپنا طرز زندگی تبدیل کرتے ہوئے سادگی اپنانا ہو گی۔

قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے سرکاری ملازمتوں میں صوبائی کوٹے میں مزید 20 سال کی توسیع دینے کی منظوری دے دی، جبکہ کمیٹی نے کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات نہ فراہم کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

مجلس قائمہ برائے کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس

چیئر پرسن کشور زہرہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ کمیٹی ممبران نے کمیٹی کے گزشتہ اجلاسوں میں کمیٹی سفارشات پر عمل درآمد نا ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔

کمیٹی نے کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے کیبنٹ ڈویژن کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات نہ فراہم کرنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کمیٹی کی آئندہ اجلاس میں گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

کمیٹی کی چیئرپرسن کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ کابینہ ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرلز اور منیجنگ ڈائریکٹرز 1800 سی سی گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں اور اعلیٰ افسران کے بچوں کو بھی پروٹوکول دیا جاتا ہے، دوسری جانب افسران  اخراجات بتانے سے گریزاں ہیں اور اخراجات کی تفصیلات کو خفیہ رکھا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی اور حیدرآباد میں انڈور تقریبات پر 15 فروری تک پابندی

غیرملکی کرنسی ڈیلرز اور کمپنیز میں پی او ایس متعارف کروانے کی تجویز

کمیٹی نے کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے دی جانے والی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کیبنٹ ڈویژن سے سرکاری عہدیداران اور افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کی مکمل رپورٹ طلب کر لی۔ کمیٹی سرکاری کارپوریشنز کے ڈائریکٹر جنرلز اور مینجگ ڈائریکٹرز کو دی جانے والی گاڑیوں کی بھی تفصیلات آئند اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کیبنٹ ڈویژن معاون خصوصی اور مشیران کو بھی گاڑیاں مہیا کرتا ہے اور جن افسران کو سرکاری گاڑی دی جاتی ہے انہیں مونوٹائزیشن الاؤنس نہیں دیا جاتا۔ حکام نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ ڈی جیز اور ایم ڈیز کو 1300 سی سی گاڑی دی جاتی ہے۔ اس موقع پر وزیر مملکت علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ہمیں بلٹ پروف گاڑی کو چھوڑ کر غریب عوام کے بارے میں سوچنا ہو گا اور جب تک ہم سب نے بحیثیت مجموعی کفایت شعاری نہیں اپنائی تو اس وقت تک ملک کے عوام قرضوں کے بھاری بوجھ  سے نجات نہیں حاصل کر سکے گی۔

چیرپرسن کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ بین الاقومی قرضوں سے نجات کیلئے عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کو اپنا طرز زندگی تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندے اور سرکاری افسران عوام کو جواب دہ ہیں انہیں ہر سطح پر کفایت شعاری کو اپنانا اور اسراف بیجا سے اجتناب کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ عوام نے ہمیں اپنے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ہمیں ملنے والی تنخواہ عوام کے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہے لہذا ہمیں عوامی اہمیت کی حامل قانون سازی اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔

کمیٹی نے ممبران قومی اسمبلی عالیہ کامران اور صلاح الدین ایوبی نے آئینی ترمیمی  بل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور   سرکاری ملازمتوں میں صوبائی کوٹے میں مزید 20 سال کی توسیع دینے کی منظوری دی۔

نیپرا کے اعلیٰ حکام نے کمیٹی کو اوور بلنگ کے معاملات اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر کمیٹی ممبران نے کہا کہ گنجان آباد علاقوں میں ہائی پاور لائن نچلی سطح پر نہیں ہونی چاہیے۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ تعمیرات کرنے والے عوام بغیر پلانگ کے تعمیراتی ڈھانچے کی تعمیر کرتے ہیں جن سے ٹرانسمیشن لائن کے راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ کمیٹی کو مزید بتایا کہ نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے بجلی ترسیل کرنے والی کمپننیوں پر  بوجھ کم ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ناقص کارکردگی والی بجلی کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ کمیٹی ممبران کا کہنا تھا کہ بجلی کمپنیوں کی نجکاری  سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ پبلک پرائیوٹ شراکت داری ماڈل سے کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

کمیٹی نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی حکام کی کمیٹی اجلاس میں عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوے کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں کے الیکٹرک اپنی حاضری کو یقینی بنانے اور اپنی پرفارمنس رپورٹ پیش کرنے کا کہا۔

کمیٹی چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک صارفین کو اصل بلوں میں لاکھوں روپوں کے چارجز شامل کرکے بل بھیجے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اضافی چارجز اس وقت کے ہیں جب یہ عمارتیں تعمیر کی گئی تھی یہ اضافی چارجز بلڈر سے لئے جانے تھے جو کہ اب ان عمارتوں میں رہنے والوں سے طلب کئے جا رہیں ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اضافی چارجز بلوں میں شامل کیا جانا کے الیکٹرک اور بلڈر کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے لہذا صارفین کو ان اضافی چارجز سے چھٹکارا  دلایا جائے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں ان سے یہ چارجز وصول کئے جائیں۔

متعلقہ تحاریر